تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے پشاور کے پی ٹی آئی جلسہ میں سرکاری وسائل کے مبینہ استعمال پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے، ضلعی الیکشن مانیٹرنگ افسر نے عمران خان کو نوٹس بھیج دیا ہے۔ جس میں عمران خان کو 9 ستمبر کو طلب کیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعلیٰ محمود خان سمیت وزراء کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ کے تحائف ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کی نااہلی کے ریفرنس پر سماعت ہوئی، عمران خان کے وکلا بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے ریفرنس میں کہا کہ آرٹیکل 63(2) کے تحت نااہلی کا کیس بنتا ہے، جبکہ ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مانگی گئی۔ ممبر خیبر پختو نخوا نے کہا کہ آئینی طور پر یہ ریفرنس نہیں بلکہ نا اہلی کا سوال ہے۔ علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 63 کی کارروائی میں 62 ون ایف کا کیس نہیں سن سکتا،آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق عدالت ہی کر سکتی ہے کمیشن نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ نے کمیشن کا دائرہ اختیار چیلنج کرنا ہے تو الگ درخواست دائر کریں۔ الیکشن کمیشن نے سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کر دی۔ عمران خان کا جواب 60 صفحات پر مشتمل ہے جس میں بتایا گیا کہ عمران حکومت کے ساڑھے 3 سال کے دور حکومت میں 329 تحائف موصول ہوئے۔ توشہ خانہ کے 58 تحائف سابق وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ نے وصول کیے جن میں سے 30 ہزار سے زائد مالیت کے 14 تحائف عمران خان اور اہلیہ کو ملے۔
پی ٹی آئی سربراہ کی جانب سے جمع جواب میں لکھا گیا کہ تمام تحائف ٹیکس ریٹرن اور اثاثوں کی تفصیلات میں موجود ہیں،توشہ خانہ تحائف کے 4 یونٹ بیچے گئے جبکہ توشہ خانہ تحائف کے عوض 3 کروڑ سے زائد کی رقم ادا کی گئی۔ ریفرنس گمراہ کن،بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے اس ریفرنس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا،میں نے اپنے کوئی اثاثے نہیں چھپائے جبکہ الیکشن کمیشن ریفرنس خارج کرے۔