چین پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک کے تحت شروع میں چین نے پاکستان میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اس دوران ملک میں سڑکیں بنیں اور پاور پلانٹ لگائے گئے۔ مگر 2014 میں اس ملک کے اصل غداروں نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا دھرنا کروا کر چینی صدر کا دورہ منسوخ کروایا جس کے باعث سی پیک پر کام رک گیا۔ اس میں غلطی چین کی نہیں بلکہ ہماری اپنی ہے اور ہمیں اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہئیے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی ابصار عالم کا۔
سماء ٹی وی پر اینکر پرسن عائشہ بخش کے پروگرام ‘Straight Talk’ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا سادہ سا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ ہم چاہتے ہیں اس ملک میں جو بھی غلط ہوا ہے ہم دوسروں پر ڈال دیں، میں چاہتا ہوں اپنے مخالف پہ ڈال دوں اور میرا مخالف چاہتا ہے مجھ پہ ڈال دے۔ سویلینز ملٹری کو قصوروار ٹھہراتے رہتے ہیں اور ملٹری والے سویلینز پہ ڈالتے رہتے ہیں۔ ہم مجموعی ذمہ داری لینے کے عادی ہی نہیں ہیں۔
ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں رات کو افیون کی گولی کھا کر سو جائیں اور جب صبح اٹھیں تو دمشق کے مینار پہ مسیحا لینڈ کر چکا ہو۔ یہ مسیحا وہاں سے ہوائی جہاز پکڑ کر سیدھا پاکستان آ جائے اور یہاں آ کر سب کچھ ٹھیک کر دے۔ ایسے نہیں ہو گا۔ کوئی بھی عرب یا ترک دوست باہر سے آ کر ہمارے منہ میں نوالے نہیں ڈالے گا، وہ کس بات پہ ہماری خدمت کریں گے کیا ہم ان کے داماد لگتے ہیں؟ یہ سب باتیں ہیں۔
مثال کے طور پر سی پیک معاہدے کی بات لے لیتے ہیں۔ شہزاد چودھری صاحب کہہ رہے تھے کہ چین نے پاکستان کے ساتھ 64 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس میں سے صرف 32 ارب ڈالر پاکستان کو دیے۔ کوئی ملک ہمارے ہاں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر دے تو ہمارے لیے یہ 32 ارب ڈالر 'صرف' ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ضیغم خان نے کہا کہ انہوں نے صرف سڑکیں بنا دیں اور پاور پلانٹ لگا دیے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا کچھ؟ یہ سرمایہ کاری 32 ارب ڈالر پہ کیوں رک گئی؟ یہ سوال سب کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئیے۔ میں بولوں گا تو آپ لوگ کہیں گے میری سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2014 میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا دھرنا کس نے ارینج کروایا تھا تاکہ چینی صدر پاکستان کا دورہ نہ کر سکے۔ سڑکیں بننا، بجلی گھر بننا اس سلسلے کی کڑی تھا کیونکہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ تھا مگر ہماری یادداشت کمزور ہے اور ہم بھول جاتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے باعث بجلی کے کارخانے پہلے لگے، مہنگے لگے اور یہ سی پیک کا پہلا فیز تھا۔
دوسرے فیز میں ہم نے چین کو اکنامک زون بنا کر دینے تھے جو موٹرویز کے ساتھ ساتھ بنائے جانے تھے جن میں چین نے وہ انڈسٹری چین سے پاکستان میں منتقل کرنی تھی جو ان کے خیال میں چین میں آؤٹ ڈیٹڈ ہو رہی تھی اور پست لیول کی انڈسٹری تھی۔ اس میں ہمارے ملک کے لوگوں کے لئے روزگار کے کئی مواقع کھلنے تھے۔ لیکن اس کے جواب میں ہم نے کیا کیا؟ پاکستان نے چین کو یہ اکنامک زون نہیں بنا کر دیے اور پھر 2014 کے دھرنے کے ذریعے ان لوگوں نے جو بدنیت ہیں اور اس ملک کے اصل غدار ہیں، انہوں نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا کہ پاکستان پر کوئی ملک اعتبار ہی نہ کرے۔ دھرنے کے ذریعے ان لوگوں نے چینی صدر کا وہ دورہ کینسل کروایا۔ یہاں نہ اکنامک زون بنے، نہ استحکام آیا اور نا ہی اگلے فیز مکمل ہوئے۔ چینی کمپنیوں پہ حملے ہوئے اور ہم نے ساری چینی کمپنیوں کو بھگا دیا۔
میزبان عائشہ بخش نے کہا کہ جب کسی ملک کو یہاں سے کچھ ملے گا نہیں تو وہ کوئی پروجیکٹ کیوں لے کر آئے گا؟ اس کے جواب میں ابصار عالم نے کہا کہ غلطی ہمارے اندر ہے، ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا، جب تک ملک کے آئین کے مطابق نہیں چلیں گے تب تک کوئی بھی ملک ہم پہ اعتبار نہیں کرے گا۔ اس وقت افغان جنگ چل رہی ہے اور نا ہی کوئی سرد جنگ جاری ہے جس سے ہم ڈالر کما سکیں، دوسروں کی جنگوں میں ہم جس طرح اتحادی بن کر کھیلتے رہے ہیں اب امریکی ڈالر ہمارے پاس نہیں آئیں گے۔ اب ہمیں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا ہو گا اور اپنے گھر کو درست کرنا ہو گا۔