اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سٹیٹ بینک کو حکومتی دائرہ حکم سے نکالنے کا منصوبہ آئی ایم ایف کے جاری بیل آؤٹ پیکج کا حصہ ہے۔ اور سٹیٹ بینک کی طاقتور بیوروکریسی اور اس وقت آئی ایم ایف نواز گورنر نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تجویز کردہ ترامیم میں وزرات خزانہ کو مکمل طور پر بائی پاس کرتے ہوئے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ جبکہ یہ ترامیم سٹیٹ بینک گورنر کی جانب سے آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ مل کر تشکیل دی گئیں ہیں۔ .
ان مجوزہ نئی ترامیم میں بینک کے اختیارات، اسکے روز مرہ کی ہدایات اور مالیاتی پالیسی میں حکومت کو مکمل طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ ترامیم پاس ہوجاتی ہیں تو بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے وزارت خزانہ اور سیکریٹری فنانس فارغ ہوجائیں گے اور گورنر سٹیٹ بینک اس بورڈ کا پانچ سال تک بلا شرکت غیرے سربراہ ہوگا جو کہ خود کو اگلے پانچ سال تک بھی منتخب کرا سکے گا۔ جبکہ بورڈ کے ممبران کی تقرری بھی گورنر سٹیٹ بینک کے دیئے گئے آپشنز میں سے ہوگی۔ یوں پاکستان کے مرکزی بینک پر حکومتی رٹ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔
اس صورتحال کے بعد حکومت نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اس سمری کو واپس بھجوا دیا ہے۔ جبکہ بینک کے گورنر رضا باقر کو چئیرمین بورڈ آف ڈائریکیٹرز سے ہٹانے کی تجویز دی ہے۔ دوسری جانب وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کی اس کشمکش میں آئی ایم ایف کی سٹیٹ بینک قانون میں ترامیم کی ڈیڈ لائن تاریخ گزر چکی ہے۔ تاہم اس معاملے نے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ کیسے عالمی مالیاتی فنڈ اس وقت پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکومت پاکستان کے مقابلے میں حکومت بنانے کے درپے ہے۔