اس صوبے کا نام بلوچستان ہے، جس کے باسی خوار ہو رہے ہیں کیونکہ حکمران نااہل ہیں اور ڈنڈے اور لاٹھی کی حکومت ہے۔ گذشتہ روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز نے احتجاجی مارچ کیا، جس کی پاداش میں نا صرف ان پر تشدد ہوا بلکہ گرفتار بھی کر لیا گیا۔ صرف اس بات پر کہ ان ڈاکٹروں نے کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی کٹس، ماسک اور دستانے نہ ملنے پر مارچ کیوں کیا۔
حفاظتی کٹس کے بغیر ڈاکٹر اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور اب تک 12 سے زیادہ ڈاکٹروں میں کرونا کی تصدیق صرف کوئٹہ سے ہوئی ہے، اب آپ خود سوچیے کہ اگر کسی فوجی کو بارڈر پر بغیر اسلحہ کے بھیجھا جائے تو دشمن سے لڑ سکتا ہے؟ نہیں بلکل نہیں۔ لیکن حکومت وقت نے یہ سب فراہم کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ ان کو مار مار کر دہشتگردوں کی طرح پولیس وین میں ڈال کر گرفتار کرنا مناسب سمجھا اور کر لیا۔
یاد رہے یہ وہی ڈاکٹر تھے، جن کو کچھ دن پہلے انہی پولیس والوں نے سلیوٹ کیا کیونکہ یہ بہادر جوان کرونا کے خلاف اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کی زندگیاں بچانے میں مصروف ہیں، لیکن گذشتہ روز سلیوٹ کرنے والی پولیس نے انہی ڈاکٹروں کے سر پھاڑ دیے۔ سوال یہ ہے کہ ان پولیس والوں کو سلیوٹ کرنے کا کس نے کہا تھا اور انہی ڈاکٹروں کا سر پھاڑنے کا کس نے کہا؟
ساری دنیا میں آج ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کو سلامی پیش کی جارہی ہے لیکن ہماری حکومت ان پر ڈھنڈے برسا رہی ہے اور بے شرمی دیکھیے کہ صوبائی حکومت ڈاکٹروں کو گرفتار کرنے بعد جواز یہ دے رہی ہے کہ انہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی اور یہ نہیں بتا رہی کہ صوبائی حکومت نے انسانیت کی خلاف ورزی کی ہے۔
دنیا بھر میں آج ملک کی بدنامی ہورہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ صوبائی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے گذشتہ روز نیویارک ٹائمز جو انٹرنیشنل اخبار ہے اس میں پولیس کا ڈاکٹروں پر تشدد رپورٹ ہوا۔ اس سے پہلے بھی ناکام جام حکومت کی وجہ دی گارڈئین میں مضمون شائع ہوئے، جس میں تفتان میں نااہل حکومت کی نااہلی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن جام حکومت کو کیا پرواہ۔ اس کو سلیکٹ کیا گیا ہے وہ تو اپنی اشتہاری مہم ٹوئٹر پر چلا رہے ہیں۔ واٹس ایپ گروپ میں شغل میلا لگا ہے، بس ٹھیک ہے۔ ان کا کیا کل کو حکومت ختم ہوگی تو وہ اسی دن جہاز میں بیٹھ کر چلے جائیں گے۔ ان کا عام عوام سے کیا لینا دینا۔
کل میری نواب اسلم رئیسانی سے بات ہوئی تھی، جیسے انہوں نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ملک میں دو وزیراعظم ہونے چاہیے۔ اسی طرح میں یہ تجویز دوں گا کہ صوبہ بلوچستان کے سلیکٹرز کو بھی دو وزیراعلی رکھنے چاہیے، جن میں سے ایک سوشل میڈیا پر اشتہاری کام کرے اور دوسرا عام لوگوں کی خدمت کرے۔ ایسا کرنے سے نہ تو ڈاکٹروں کو کوئی مسئلہ ہوگا اور نہ ہی کرونا ہمارے لئے مسئلہ بنے گا، جس پر انہوں نے کہا کہ اس پر ہمیں 23 مارچ 1940 کی قرارداد کے مطابق ایسا آئین بنانا چاہے۔