آج سے کچھ عرصہ پہلے جب چین کے شہر ووہان کے شہریوں میں کرونا وائرس کی باتیں پاکستانیوں کو سننے کے لئے ملی تو ہم پاکستانیوں اور خاص کر ہم پٹھانوں کے منہ پر صرف یہ ایک بات تھی۔ "دا پہ ہسی گپ ووی" جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح ہے 'یہ ویسے ہی مذاق ہی ہوگا'۔ چین اور اٹلی میں جب کرونا وائرس نے اپنا روپ زور و شور سے دکھایا تو دنیا کے باقی ممالک کو کرونا وائرس نے کرونا وائرس کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کیا۔ لیکن ایک ہم ! جو دنیا سے ہمیشہ ایک الگ پہچان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی پہچان کی وجہ سے ہم نے کرونا کے خطرے کو بھی نظر انداز کیا۔ کرونا وائرس سے خطرے کی گھنٹی وزیراعظم صاحب نے اپنی خطاب میں خود ہی بجا دی "کسی کو یہ خوشی فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کورونا وائرس پاکستان میں نہیں پھیلے گا"ویسے تو خان صاحب نے اپنے خطاب میں کرونا کے حوالے سے بہت باتیں کیے لیکن اس جملہ سے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ کرونا وائرس سے پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ اور خاص کر معیشت کے حوالے سے جو ہمیشہ سے ہی دوسروں کے کندھوں پر چل رہی ہے۔
بقول وزیراعظم عمران خان صاحب "اللہ نے ہمیں اب تک بچایا ہوا ہے لیکن پھر بھی ہم نے احتیاط کرنی ہے۔" اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستانیوں پر اللہ تعالی کا خاص فضل وکرم ہے ورنہ باقی ممالک میں دیکھا جائے تو روز اختیاطی تدابیر کرنے کے باوجود کرونا کے ہزاروں کی تعداد میں نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کیا کرونا مریضوں کے تعداد کے یہ اعداد و شمار درست ہے جو کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے انتہائی کم ہے یا حقیقت اس کے برعکس ہے؟
اس طرح باقی دنیا کے ممالک خاص کر امریکہ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے پاس ترقی یافتہ ممالک سے تقریبا 30 گنا کم مریضوں کے کرونا وائرس ٹیسٹ کروانے کی کٹس ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی ترقی یافتہ ممالک جتنے کرونا ٹیسٹ ایک دن میں کئے جائیں تو پھر ہمارے ملک میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کی درست تعداد سامنے آسکتی ہے۔
ٹیسٹنگ میں بڑے خلا کی وجہ سے میرے نزدیک پاکستان کے اعداد و شمار کا دوسروں ممالک کے ساتھ موازنہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہم ایک دن میں اتنے مریضوں کے کرونا ٹیسٹ نہیں کراسکتے جتنے باقی ممالک میں ہوتے ہیں۔ملک میں اگر اچھے انداز میں کرونا کے ٹیسٹ ہوجائیں۔ تو درست اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ لوگ کورونا کے خطرے سے بخوبی آگاہ ہوجائینگے۔ اور لوگ اختیاطی تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ باقی تو "زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھوں میں ہے"۔ بے شک اس پر کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ ایک دن ہم سب کو اللہ تعالی کے پاس جانا ہے۔ کوئی آج جائے گا کوئی کل جائے گا اور کوئی آنے والوں دنوں میں جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے۔موت کے معاملے میں دنیا کے ہر مذہب کا یہی ماننا ہے کہ موت برحق ہے۔لیکن ہر انسان ایسی موت کی خواہش کرتا ہے جس پر انسانیت کو فخر ہو۔ اور اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم سب کو ایسی موت دے کہ ہماری موت پر انسانیت کو فخر ہو۔