امیر، غریب، مسلم ، غیر مسلم سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا ہے۔غیر یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے فی الحال اس کا علاج 'محدود ہوں، محفوظ ہوں میں ہے'۔اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے چائنا نے گا ہے بگاہے اس پر قابو پا لیا۔ جنوبی کوریا نے اس پہ قابو پا لیا ہے ابتدا میں سنگا پور نے بھی قابو پایا لیکن بعد میں اسے دوسری لہر کا سامنا کرنا پڑا۔امریکہ کے بارے میں یہ بات خارج از قیاس تھی کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پہ اس وبا کا سامنا کرے گا کیونکہ ابتدا میں امریکی صدر نے اطمینان کا اظہارکیا تھا۔ یہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ایسا منظر نامہ سامنے آۓگا کہ امریکہ روس کی امداد قبول کرے گا اور چائنا سے تعاون کا خواہ ہو گا۔ اس ساری صورتحال میں ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے جن جن ممالک میں اس وبا نے شدت اختیار کی ہے وہاں لیڈرشپ کا فقدان بھی نظر آیا ہے۔ایسے بحران میں لیڈرشپ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔لیڈرز ہی عوام کو اعتماد میں لے سکتے ہیں ابتدا میں پاکستان میں اس قسم کی صورتحال نظر آئی۔
اس میں کوئی دو آرا نہیں جن ممالک نے چائنا کے ماڈل کو اپنایا انہوں نے کافی حد تک اس وبا کو قابو کر لیا جیسے جنوبی کوریا جاپان اور اور مشرق بعید کے کئی دیگر ممالک لیکن جنھوں نے عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کیا وہ بری طرح اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ایک طرف دنیا کرونا سے نبرد آزما ہے اسکے پھیلاٶ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف اس کے علاج پر بھی بھرپور کام ہورہا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے شعبہ طب کی طرف سے کوئی ایسی موثر تحقیق سامنے نہیں آئی حالاں کہ بیشتر ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں،ترقی پزیر ممالک بھی اس کے اوپر کام کر ہے ہیں۔ پاکستان میں شعبہ طب میں تحقیق پر توجہ ہی نہیں دی۔ ا س سے مفر ممکن نہیں کہ اس وبا سے پہلے دنیا ایک الگ تصویر پیش کرتی تھی۔اپنے اپنے مفادات اپنی اپنی ترجیحات کے لئے چڑھ دوڑنے کی کوششیں، اسلحہ سازی کے ذریعے استحکام معیشت، عسکری قوت پر بھر پور کام، یہ سب چیزیں توجہ کا مرکز تھی۔کرونا کے بعد کی نئی دنیا جب سراٹھائے گی وہ یکسر مختلف ہوگی۔کیونکہ وہ جان گئی ہے کہ جنگیں صرف عسکری قوت سے نہیں جیتی جا سکتی ہیں