تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں پیدا ہونے والے چینی بحران سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں جہانگیر ترین سرفہرست ہیں۔ اس الزام پر ردعمل دیتے ہوئے جہانگیر ترین نے متعدد ٹی وی چینلز پر اعظم خان کا ذکر کیا اور کہا کہ گذشتہ چھ ماہ سے ان کے ساتھ اختلافات چل رہے ہیں اور اس رپورٹ میں مجھے اعظم خان کے کہنے پر نشانہ بنایا گیا۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کون ہیں؟
اردو نیوز سے منسلک صحافی وسیم عباسی نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ اعظم خان اس وقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہیں اور وہ پاکستان ایڈمنسڑیٹیو سروس گروپ کے افسر ہیں۔ ضلع مردان کے علاقے رستم میں پیدا ہونے والے اعظم خان کا تعلق ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ہے۔
انہوں نے برن ہال کالج ایبٹ آباد سے تعلیم حاصل کی اور سول سروس کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد متعدد اہم پوزیشنز پر تعینات رہے۔ اپنی سروس کا زیادہ تر عرصہ اعظم خان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں گزارا جہاں وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیٹیکل ایجنٹ بھی رہے اور پشاور کے کمشنر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ صوبے کے مختلف محکموں میں جوائنٹ سیکرٹری، ایڈشنل سیکرٹری کے طور پر کام کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پچھلے دور حکومت میں اعظم خان صوبائی چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے، جہاں صوبائی حکومت کے اہم اجلاسوں میں شرکت کرنے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کی نظر انتخاب ان پر ٹھہری۔
2018 کے انتخابات میں وزیراعظم بننے کے فوراً بعد عمران خان نے کئی دوسرے سینیئر افسران کی موجودگی کے باوجود اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کر دیا جو پاکستان میں بیوروکریسی کا سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے بیوروکریسی کی رپورٹنگ کرنے والے انگریزی اخبار دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کے مطابق وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات وفاقی وزرا بھی اس سے کم اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی رہنما اس عہدے کے حوالے سے شاکی نظر آتے ہیں۔
انصار عباسی کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اسی طاقت کے باعث وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ تاہم پرنسپل سیکرٹری اپنا کوئی فیصلہ وزیراعظم کی مرضی کے بغیر نہیں کرتا اور وہ اپنی طاقت وزیراعظم کے دفتر سے ہی اخذ کرتا ہے۔
انصار عباسی کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کی جانب سے اعظم خان پر تنقید کا جواز نہیں بنتا کیونکہ تمام فیصلے اصل میں وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں۔