پاکستان میں پہلے مریض کی تشخیص کے بعد سندھ حکومت اور گلگت بلتستان حکومت نے ہوش کے ناخن لیے۔ لیکن اسی عرصے میں ایران گئے ہوئے گلگت بلتستان کے بہت سارے زائرین تفتان پہنچ چکے تھے جن کو وہاں قرنطینہ کے نام پر ایک عجیب صورتحال میں رکھا گیا۔ سینکڑوں زائرین کو ایک ساتھ رکھنے کی وجہ سے صحت مند زائرین کو بھی وائرس لگنے کاخطرہ لاحق ہو گیا۔ یوں انہیں کسی نہ کسی طرح گلگت بلتستان پہنچا کر قرنطینہ کر دیا گیا۔
اس دوران گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے تھوڑی سی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ہوٹلوں کو خالی کر کے زائرین کے لئے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔
اس ہنگامی صورتحال میں گلگت بلتستان حکومت نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے طبی عملے کو بغیر کسی حفاظتی انتظام کے ڈیوٹی پر مامور کیا۔ اسی وجہ سے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض خالقِ حقیقی سے جا ملے اور ہم ایک ہونہار ڈاکٹر سے محروم ہو گئے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کا پہلا نشانہ بنے۔ اس نقصان کے بعد ینگ ڈاکٹرز اسوسی ایشن گلگت بلتستان نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مقامی حکومت کو طبی عملے کے لئے فوری حفاظتی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تو ڈاکٹر اعجاز ایوب کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر راتوں رات گلگت سے نگر تبادلہ کیا گیا۔ بعد ازاں ینگ ڈاکٹرز اسوسی ایشن اور محکمہ صحت کے درمیان مذاکرات کے بعد ڈاکٹر اعجاز ایوب اور ینگ ڈاکٹرز اسوسی ایشن گلگت بلتستان کے مؤقف کو جائز قرار دے کر حفاظتی کٹس کی فراہمی اور انتظامات کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اس کے اگلے دن ڈاکٹر اعجاز ایوب کی سربراہی میں ایک ماہر ٹیم نگر روانہ ہوئی اور کل شفٹ تبدیل ہو گئی۔ ڈاکٹر رازق کے ساتھ ٹیم نگر میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
حفاظتی کٹس نہ ہونے اور ڈاکٹرز برادری کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے حکومت چین کو خط لکھ دیا جس کے بعد چین سے کافی تعداد میں ڈاکٹرز کے لئے ذاتی حفاظتی کٹس، N95 ماسک اور وینٹی لیٹرز سمیت دیگر ضروریات کے سامان گلگت بلتستان حکومت کے حوالہ کیا جس پہ گلگت بلتستان کے باسی چین کے مشکور و ممنون ہیں۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض کے بعد نگر سے تعلق رکھنے والے ایکسرے ٹیکنیشن ملک اششدر کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود بیمار ہو کر استپال میں داخل کر دیے گئے اور چار دن بعد وہ بھی اس فانی جہان سے کوچ کر گئے۔ ملک اششدر کی موت کے پیچھے بھی حفاظتی انتظامات نہ ہونا ہے۔
ایک دلچسپ بات اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت تک گلگت بلتستان میں روزانہ کی بنیاد پہ 10 سے 17 مشتبہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک ٹیسٹ سنٹر ہونے کی وجہ سے بلتستان سے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نتائج بہت دیر سے موصول ہوتے ہیں جو کہ خطرناک عمل ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض اور ملک اششدر کے شہید ہونے کے بعد ہی ٹیسٹ کے نتائج دیے گئے اور دونوں میں کورونا وائرس پایا گیا جس کے بعد ملک اششدر جس اسپتال میں کام کر رہا تھا وہاں کے تمام سٹاف کو قرنطینہ کیا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق ملک اششدر کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لئے نمونہ 24 مارچ کو لیا گیا جب کہ 29 مارچ کو اس کے انتقال کے بعد اس کے نتائج محکمہ صحت نگر کے حوالہ کیے گئے۔
وزیر اطلاعات شمس میر کے مطابق بلتستان میں باہر سے آئے ہوئے مریضوں کے علاوہ کورونا وائرس مقامی لوگوں میں بھی منتقل ہو گیا ہے جب کہ محکمہ صحت بلتستان نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی سطح پر کوئی ٹرانمیشن نہیں ہوئی ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ متاثر ضلع نگر ہو گیا ہے۔ اب تک کے تعداد کے مطابق 80 افراد کا تعلق نگر سے بتایا جاتا ہے جب کہ باقی 120 افراد میں ضلع گلگت اور بلتستان ریجن کے مریض شامل ہیں۔
گلگت بلتستان میں صرف ایک کورونا وائرس ٹیسٹ سنٹر ہونے کی وجہ سے آنے والے ایام میں صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا میں گلگت بلتستان کے نوجوان حکومت پہ دباؤ ڈالنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں کہ فوری طور پر مزید ٹیسٹ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کچھ دن پہلے نیوز اسلام آباد میں دو کالم خبر لگی ہے جس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت بلتستان میں ٹیسٹ سنٹرز کے اضافے کا عندیہ دے دیا ہے جو کہ اچھا عمل ہے۔ اخباری ذرائع کے مطابق بلتستان میں ایک سنٹر کھولا گیا ہے اور محکمہ صحت گلگت بلتستان کے فوکل پرسن برائے کورونا وائرس ڈاکٹر شاہ زمان نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا ہے گلگت سنٹر میں روزانہ کی بنیاد پہ 50 سے زیادہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا جائے گا مگر اس حوالے سے گلگت بلتستان کے سینیئر صحافی دوست مطمئن نہیں ہیں۔ ایک سینئیئر صحافی نے کہا کہ جب تک ٹیسٹ سنٹر مزید نہیں بنائے جاتے، اس ایک ٹیسٹ سنٹر سے اتنا زیادہ کام لینا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت گلگت بلتستان میں مکمل لاک ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے حالات کسی حد تک کنٹرول ہو گئے ہیں، جب کہ قومی میڈیا میں یہ خبر بھی چلی ہے کہ رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کے افراد میں بھی وائرس پایا گیا ہے جو کہ مزید تشویشناک بات ہے۔ یہ وائرس کسی کا خیال نہیں رکھتا ہے، کسی علاقے، فرقے، ذات اور نسل کے لئے اس کے پاس کوئی رعایت نہیں ہے۔ اس لئے میری گگت بلتستان کے نوجوانوں سے گذارش ہے کہ اس کو فرقہ وارنہ عینک سے دیکھنے کے بجائے ایک قوم بن کر اس کو کنٹرول کرنے میں حکومت، ڈاکٹرز اور دیگر ذمہ داروں کے ساتھ کام کریں۔
گلگت بلتستان سے جہاں ایک بڑی تعداد ایران گئی تھی، وہیں ایک بڑی تعداد تبلیغ کے لئے بھی جاتی ہے اور بہت سارے لوگ مختلف ممالک سے سفر کر کے آئے ہوئے ہیں جن کو اپنا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس بیماری پہ قابو کے لئے ہمیں ایک دوسرے پہ الزامات کے بجائے ایک بازو بن کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دو ہفتے گزر گئے مگر حکومت نے غریبوں تک راشن پہنچانے میں جس سست روی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن سے مزدور اور محنت کش طبقہ بہت زیادہ مسائل کا شکار ہوگا۔
اب اس تقسیم کو بھی ہم اس وقت تک مؤثر اور منصفانہ نہیں بنا سکتے جب تک سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کو اس عمل میں شریک نہ کریں۔
المیہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ اور یونین کونسلز کے الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بے تاج بادشاہ بن گئی ہے۔ منتخب حکومتوں نے گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں شامل ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لئے اب اتنا مشکل مرحلہ رکھا گیا ہے کہ راشن پہنچتے پہنچتے غریب بھوک سے نڈھال ہوں گے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ پیپلز پارٹی اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے میں کردار ادا کرتی۔ آج نواز لیگ کو یہ موقع نہ ملتا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے بجائے عوام کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے۔
لگتا ہے کہ جمہوریت کے نام پہ اقتدار حاصل کر کے سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کو جمود کا شکار کر کے جمہور کو سرکاری ملازمین کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ منتخب حکومتیں سیاسی کلچر کا گلا گھونٹ کے پھر سیاسی عمل کے ناپید ہونے کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے اور اس وبائی مرض کو مکمل کنٹرول کرنے کے لئے فوری طور پر راشن تقسیم کیا جائے۔ اب بھی مختلف اضلاع اور جگہوں سے شکایت موصول ہو رہی ہیں کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ذاتی حفاظتی کٹس میسر نہیں۔ پہلی فرصت میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کو ذاتی حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں اور اس مشکل وقت میں ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ بہتر طریقے سے متاثرہ افراد کا بہتر خیال رکھ سکیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ، غذر اور دیامر میں کورونا وائرس کا ایک بھی پازیٹو کیس موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود غذر، ہنزہ اور دیامر میں عوام لاک ڈاؤن کر کے حفاظتی اقدامات میں پیش پیش ہیں۔
اسلام آباد سرکار اور گلگت بلتستان حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس بیماری پہ فوری طور پر مزید وقت ضائع کیے بغیر کنٹرول کرنے کے لئے گلگت بلتستان میں کم از کم پانچ جگہوں پہ کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کے لئے سنٹرز کا قیام عمل میں لائیں۔