ایران میں خواتین کو حقوق حاصل نہیں
ایران میں خواتین کو شادی، جائیداد، طلاق، بچوں کی حوالگی اور دیگر کئی معاملات میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایرانی خواتین اپنی شہریت اپنے غیر ایرانی شوہر حتیٰ کہ اپنی غیر ایرانی اولاد تک کو نہیں دے سکتیں۔ شادی شدہ خواتین کو ملک سے باہر سفر کرنے کے لئے صرف پاسپورٹ نہیں بلکہ اپنے شوہر کا تحریری اجازت نامہ بھی درکار ہوتا ہے۔ ایران کے سول کوڈ کے مطابق شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ اس کے خاندان نے کہاں رہنا ہے اور وہ اس بات کا مکمل اختیار رکھتا ہے کہ اس کی بیوی کہاں نوکری کرے یا کہاں نوکری نہ کرے۔
ایران کے حجاب پہننے کے قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کئی خواتین نے دسمبر 2017 اور جنوری 2018 میں اپنے سکارف اتار کر برقی یوٹیلٹی باکسز پر کھڑے ہو کر احتجاج کیے۔ احتجاج میں شامل کئی خواتین کو عدالت کی جانب سے چند ماہ سے لے کر بیس سال تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
احتجاج کرنے والی ایک خاتون، شاپارک شجرِزادہ کا دفاع کرنے کی پاداش میں حکام کی جانب سے نسرین سوتودیہ کے خلاف بھی شکایت درج کی گئی۔
جون کے مہینے 2018 ورلڈ کپ میں ایران کی قومی فٹ بال ٹیم کے میچ کی سکریننگ کے موقع پر حکام کی جانب سے آزادی سٹیڈیم کے دروازے مرد و خواتین کے لئے کھولے گئے۔ حکام کی جانب سے وعدے کے باوجود خواتین کو ایران کی فٹ بال لیگ سمیت مردوں کے کئی اور کھیلوں کے میچز دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایرانی قوانین میں یہ بات واضح طور پر موجود نہیں کہ اخلاقیات کا دائرہ کار کیا ہوگا، کس چیز کو غیر اخلاقی تصور کیا جائے گا۔ حکام نے بہت عرصے سے آرٹ، موسیقی، اور دیگر کئی ثقافتی چیزوں پر پابندی نہ صرف عائد کر رکھی ہے بلکہ ایسا کرنے والے کئی افراد کو سزائیں بھی دی جا چکی ہیں۔ اس طرح کی سزائیں پانے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔ 9 جولائی 2018 کو ایران کے سرکاری ٹیلی وژن سے کئی خواتین کی معافی کی وڈیوز نشر کی گئیں جنہوں نے اپنے انسٹاگرام اکائونٹس پر اپنی ڈانس کی وڈیوز اپلوڈ کی تھیں۔
مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک
ایران میں بہائی کمیونٹی کو مذہبی آزادی دینے سے ریاست نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک بھی روا رکھا۔
نومبر 2018 تک تقریباً 79 بہائیوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ ایرانی اتھارٹیز کی جانب سے منظم انداز میں بہائیوں کو سرکاری یونیورسٹیز میں ان کے عقیدے کی وجہ سے داخلہ بھی نہیں دیا گیا۔
ایران میں دیگر مذہبی اقلیتوں بشمول سنی مسلمانوں کو بھی امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔ جب کہ ملک بھر میں ازیری، کردش، عرب اور بلوچ اقلیتوں کو سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
آرٹیکل 18 کے تحت، ایک ایرانی این جی او کے مطابق، 30 ستمبر 2018 تک ایران میں 37 عیسائیوں کو قید کی سزائیں سنائی گئیں کیونکہ وہ اسلام سے عیسائیت میں داخل ہوئے تھے۔
معذورین کے حقوق
2018 میں سنٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران اور ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے دستاویز پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح معذور افراد کو صحت سمیت دیگر کئی بنیادی مسائل اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معذور افراد کو ان کی مرضی کے بغیر الیکٹرک شاک جیسی تھیریپی سے گزارا جاتا ہے۔
مارچ میں ایرانی پارلیمنٹ نے ڈس ایبیلٹی قانون پاس کیا جس کے تحت معذور افراد کی پنشن بڑھائی گئی اور انہیں انشورنس بھی فراہم کی گئی۔ تاہم الیکشن قوانین کے مطابق نابینا اور سماعت سے محروم افراد پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہو سکتے۔