اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جسٹس عامر فاروق کیانی کی عدالت نے نیب کی جانب سے ایک سمندر پار پاکستانی کی جانب سے ملک میں 75 کروڑ کی سرمایہ کاری سال 2014 میں لانے کی انکوائری پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ قومی احتساب بیور ( نیب) کی کاروائی وقت کا ضیاع ، بدنیتی ، غیر قانونی پر مبنی تھی اور نیب نے بیرونی سرمایہ کاری اور معیشت کو برباد کیا۔
تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سمندر پار پاکستانی راجہ ظفر مستقل طور پر لندن میں مقیم ہے اور ایک کاروباری شخصیت ہے ۔ سمندر پار پاکستانی نے سال 2009 میں ایک کمپنی بنائی جو ملک بھر کی مختلف کمپنیز کو کنسلٹنسی سروس فراہم کررہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ شخص مختلف کمپنیز میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔
فیصلے میں لکھا ہے کہ سال 2012 میں ان کے کزن ناصر محمود عباسی نے ان کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کیا اور انھوں نے سرمایہ کاری کی عرض سے 75 کروڑ روپے برطانیہ سے پاکستان لائے جس پر نیب نے انکوائری شروع کی۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ نیب کے تفشیشی افسر نے تین سال بعد عدم شواہد کی بنیاد پر انکوائری بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
نیب کے ادارے نے اداروں کا نہ صرف وقت ضائع کیا بلکہ تین سال ادارے کو بے معنی چیزوں میں لگایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا نیب کی سمندر پار پاکستانی کے خلاف انکوائری نہ صرف بد نیتی پر مبنی تھی بلکہ اس کے ساتھ قومی معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کو بھی تباہ کیا