قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے 3 اپریل سے پہلے کی صورتحال بحال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کیخلاف ووٹنگ کے احکامات جاری کر دئیے ہیں، اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اب یہ عمل غیر موثر ہو جائے۔
سپریم کورٹ نے ناصرف اپنے فیصلے میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا بلکہ اسمبلی بحال کرتے ہوئے اس کے وقت اور انعقاد کا دورانیہ تک طے کر دیا ہے۔ اب اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔ تاہم اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ کھلم کھلا توہین عدالت ہوگی۔
اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کیلئے صدر مملکت کو کوئی ایڈوائس نہیں بھیج سکتے، وہ اپنا یہ آئینی اختیار کھو چکے ہیں۔
وائس آف امریکا میں چھپنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی حکم نامے کے بعد ازخود نوٹس کی پہلی ہی سماعت میں صدر اور وزیراعظم کو عدالتی حکم نامے کا پابند بنایا تھا۔ اعلیٰ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں بھی 3 اپریل 2022 کا یہ آرڈر برقرار رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیرِاعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک مؤثر ہوچکی ہے، اس لئے آئین کے آرٹیکل 58 ایک کے تحت وہ اب صدر کو اسمبلی توڑنے کی تجویز ارسال نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس عدالتی حکم پر عملدرآمد روکنے کیلئے کسی اقدام کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ اب عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے کے بعد ہی وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر کو بھیج سکتے ہیں۔
حیدر امام رضوی کا کہنا تھا کہ مشرف کیس میں اگرچہ لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو معطل کردیا تھا جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے لیے حکومت نے مبینہ غیر ملکی سازش کو بنیاد بنایا تھا اور عدالت میں اس حوالےسے حکومتی وکلا نے دلائل بھی دیے تھے۔ یہ تفصیلی فیصلے کے بعد ہی واضح ہوگا کہ عدالت اس معاملے میں کتنا جائے گی۔
ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ عدالت نے خود کو اس لیے صرف رولنگ کی آئینی حیثیت تک محدود رکھا ہے، اگر یہ نظیر قائم کردی جاتی تو کل کو سپیکر قومی مفاد کی بنیاد پر کسی بھی قانون سازی کو روکنے کے لیے رولنگ جاری کرسکتا تھا اور عدالت نے اس دروازے کو بند کر دیا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت نے آئین کی شق 184 تین کے تحت از خود نوٹس لیا تھا اور خود کو اس سوال تک محدود رکھا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کے مطابق تھی یا نہیں؟ باقی فریقوں کی درخواستیں بعد میں سامنے آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ مبینہ سازش کے جواز پر بھی بات نہیں کی۔
عدالت نے حکومت سے یہ دریافت بھی کیا تھا کہ کیا وہ منٹس آف دی میٹنگ لائے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں اس پر کوئی بات کی جائے۔
بعض مرتبہ بدنیتی ثابت ہونے کے باوجود آئینی معاملات میں عدالت صرف اقدام کی نوعیت کا تعین کرنے سے آگے نہیں جاتی اور آرٹیکل چھ سے متعلق کارروائی وفاقی حکومت اور پارلیمان کا استحقاق ہے۔ اگر وہ چاہیں تو مستقبل میں اس پر کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم میں ڈپٹی اسپیکر، وزیرِ اعظم اور صدر کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا ہے لیکن اس میں اس بدنیتی کو ثابت کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوگا اور امکان یہی ہے کہ عدالت اس سے گریز کرے گی۔