وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے پارلیمنٹ اور عدلیہ کی علیحدگی کا معاملہ متاثر ہوا۔ ہماری قانونی ٹیم اس معاملے پر مشاورت کر رہی ہے تاکہ فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے سمیت دیگر قانونی آپشنز کا جائزہ لیا جا سکے۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم جبکہ اسمبلی کو بحال کرنے کیساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے حیران کن فیصلہ کیا کہ ہمارے منحرف اراکین ووٹنگ میں حصہ لے سکیں گے۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ کے سامنے تو یہ کیس ہی نہیں تھا کہ وہ ووٹ ڈال سکتے ہیں یا نہیں۔ موجودہ صورتحال میں جس طرح سے ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے اس پر پوری قوم کو تشویش ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اداروں کا اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کا اصول متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں 'سیپیریشن آف پاور' کے اصول کی بری طرح خلاف ورزی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی حاکمیت اور بالادستی اب برقرار نہیں رہی۔ حاکمیت اور بالادستی اب پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کی جانب منتقل ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان کے عوام ملک کے حاکم نہیں رہے بلکہ چند ججز اب ملک کے فیصلے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور ہم اس پر نظر ثانی کے لئے عدالت سے رجوع کریں گے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی 3 اپریل کی کارروائی پر ازخود نوٹس لیا تھا، جس کی پانچ روز تک سماعت جاری رہی۔ 7 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے 3 اپریل کے ڈپٹی سپیکر، صدر مملکت اور وزیراعظم کے تمام احکامات کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی اور 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔