اقوام متحدہ کی 2015ء میں کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان کی 45.5 فیصد شہری آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہتی ہے۔ اس طرح، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 34 ملین لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، جہاں بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم تک رسائی میں کمی ہے۔ ایک جانب پاکستان کی شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بڑے شہروں میں رسمی رہائش کا فقدان ہے، خاص کر کم آمدنی والے طبقے کے لئے تو سستی رہائشی سکیمیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے سبب کچی آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
شہروں پر بڑھتا ہوا بوجھ اور نامناسب مقامی منصوبہ بندی
روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں لوگوں کی بڑے پیمانے پر آمد نے شہروں کے پہلے سے زیادہ بوجھ والے انفراسٹرکچر پر دباؤ بڑھایا ہے، جس کے نتیجے میں غیر رسمی برادریوں میں مزید توسیع ہوئی ہے۔ جس سے کچھ بہت ہی مخصوص مسائل سامنے آتے ہیں، جیسے سستی مکانات تک رسائی کی کمی، نامناسب مقامی منصوبہ بندی، زمین کے انتظام کا نامکمل نظام، نیز بڑھتی ہوئی شہری غربت کے ساتھ معیاری اور مناسب معیار تعلیم تک رسائی نہ ہونا- ان کچی آبادیوں کی بہتری اور تعمیر کی بات کی جائے تو پانی اور صفائی، رہائش، صحت اور عوامی ذرائع آمدورفت کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ، شہری آبادی میں اضافہ منصوبہ بند شہری کاری سے مماثل نہیں ہے، جس کے نتیجے میں غیر رسمی شہری بستیوں کی تشکیل اور لوگوں کے لیے دستیاب شہری خدمات کی کمی ہے۔
جنوبی ایشیا کے بڑےشہر کراچی کی کچی آبادیاں
صرف شہر کراچی میں کتنی کچی آبادیاں بشمول گوٹھ اور جھگیاں ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مستند جواب کسی کے پاس نہیں لیکن ایسے کئی سوالات ہیں جو اس شہر سے جڑے ہیں جیسے اس کی آبادی کتنی ہے اور اس شہر سے پیدا ہونے والا کچرا کتنا ہے؟ اسی طرح یہ اعداوشمار تو ملتے ہیں کہ شہر میں کل کتنے سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں، ساتھ ہی مشہور اور بڑے نجی تعلیمی اداروں کی تفصیل بھی مل جاتی ہے مگر چھوٹے اور محلوں کی سطح پر قائم سکول اور مدارس کی تفصیل کی ساتھ یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ کتنے سرکاری سکول شہر کی کچی آبادیوں سے ملحقہ ہیں اور ان کچی آبادیوں کی مکینوں کے بچے کس حد تک ان سکولوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں؟ سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے مطابق کراچی شہر میں کل 575 کچی آبادیاں ہیں۔ مگر حقیقتاً ان کچی آبادیوں کی تعداد دگنی سے زیادہ ہے اور رجسٹر نہ ہونے کے باعث سرکاری طور پر ان کچی آبادیوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس لئے باضابطہ طور پر ان آبادیوں کو پانی، گیس، بجلی، تعلیم اور صحت سمیت کوئی بھی بنیادی سہولت نہیں دی جاتی۔ یہاں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت پانی، بجلی اور گیس کا انتظام تو متعلقہ اداروں کے ملازمین کے ساتھ یا انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کر لیتے ہیں مگر تعلیم اور صحت کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پاتی۔
کچی آبادیوں میں تعلیم کی حیثیت اور دیگر مسائل
کچی آبادیوں کے مکینوں کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ زمین کی ملکیت کا نہ ہونا ہے۔ اکثر کی زندگی صرف زمین کی ملکیت اور شناخت حاصل کرنے کے گرد گھومتی ہے اور رجسٹر نہ ہونے کے باعث ہر وقت گھر مسمار ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے اور جتنا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی ذہنی دہاؤ اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے اور رہائش ایک جزوقتی انداز کی رکھی جاتی ہے تو بچوں کی تعلیم کا حصول پہلی ترجیح نہیں ہو پاتا۔ عام طور پر یہ لوگ دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں، اس لئے بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر پاتےاور بغیر منصوبہ بندی کے بنی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں چھوٹے سے پلاٹ پر بلاکوں سے پتلی دیواروں کے چھوٹے چھوٹے کمروں پر ٹِن کی چھت ڈال کر زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا رہے ہوتے ہیں اور ایسے ماحول میں تعلیم کا حصول ایک کوہ گراں سے کم نہیں۔ پانی سے محروم علاقوں کی طرح کراچی کی ان کچی آبادیوں میں سے کئی ایک میں پانی لانے کا فریضہ یا تو بچے سرانجام دیتے ہیں یا پھر یہ ذمہ داری خواتین کے سر ہوتی ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ کچی آبادیوں میں تعلیم کی حیثیت، ترجیح
اور انداز ملک کی رسمی آبادیوں اور شہر کے پوش علاقوں اور حتٰی کہ دیہی علاقوں سے قدرے مختلف ہے۔ یعنی مجموعی طور پر پورے ملک کی تعلیمی رپورٹ کی سالانہ حیثیت اور کچی آبادیوں کی تعلیمی حیثیت میں واضح فرق ہے۔
کچی آبادیوں میں سیکھنے کا عمل، ادارہ تعلیم وآگہی کی تحقیق
تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والے پاکستان کے معروف ادارے ادارہ تعلیم و آگہی (ITA) نے اپنے پروگرام 'تعلیمی رپورٹ کی سالانہ حیثیت' (ASER) پاکستان کے تحت مئی 2021ء میں پاکستان کی کچی آبادیوں میں پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کے معیار پر ایک تجرباتی سروے کیا اور نومبر 2021ء میں اپنی پہلی رپورٹ شائع کی۔ اس تجرباتی تحقیق میں پاکستان کے چار اضلاع کو شامل کیا گیا جس میں تین اضلاع پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لئے گئے جس میں کراچی غربی، کراچی کورنگی، ملیر ضلع کی کچی آبادیوں کو لیا گیا جبکہ لاہور سے ایک ضلع شامل کیا گیا۔ مجموعی طور پر 114 کچی آبادیوں میں یہ سروے کیا گیا۔ اس تحقیق میں تعلیمی نقطہ نظر کے ساتھ ان کچی آبادیوں کے مکینوں کے انتہائی مشکل حالات زندگی کو سمجھنا تھا جو کہ پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے حقوق سے محرومی سے شروع ہو کر کچی آبادیوں میں مناسب تعلیمی سہولیات کی کمی تک پھیل جاتے ہیں۔ حتٰی کہ ان کچی آبادیوں میں سے کم از کم 20 فیصد کے پاس کوئی سرکاری سکول موجود نہیں اور زیادہ تر آبادیوں میں پانی کی کمی اور نکاسی آب کے نظام کے مسائل ملے۔
سروے شدہ کچی آبادیوں میں جو بھی سکول ملے ان میں بچوں کے داخلے کے لیے سکول کے انتخاب میں 41 فیصد سرکاری سکولوں میں داخل ہوئے جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں زیادہ بچے (59 فیصد) بشمول مدارس اور غیر رسمی تعلیم میں داخل ہوئے۔
تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ پانچ سال کی عمر سے اندراج میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، جو 10 سال کی عمر میں اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ تقریباً 30 فیصد یا 16 سال کی عمر کے تین میں سے ایک بچہ سکول سے باہر ہے۔ مجموعی طور پر مدارس میں داخلہ 8 فیصد ہے۔ جو ماضی کے رجحانات کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ کراچی کے ضلع کورنگی اور ملیر کی کچی آبادیوں کے مدارس میں داخلہ بالترتیب 2.6 فیصد اور 2.5 فیصد ہے، جبکہ کراچی کے ضلع غربی میں کچی آبادی کے 24 فیصد طلبہ یا چار میں سے ایک بچہ مدرسوں میں داخل ہے۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ رہائشی آبادیوں کے مختلف ہونے سے بچوں کی تعلیم پر کیا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ کچی آبادیوں کے مکینوں کو مختلف طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم کا سوچنا پڑتا ہے، پھر یہ بھی سامنے آیا کہ شہر کراچی کی کچی آبادیوں میں بہت سے نجی سکول دیہی ڈھانچے پر کام کر رہے ہیں جس سیکھنے کے عمل میں عدم مساوات نمایاں ہے۔
شناختی دستاویزات اور سکول تک رسائی
تعلیم کا حصول شناختی دستاویزات اور رسائی سے بھی منسلک ہے۔ جیسا کہ کراچی کے ضلع وسطی میں جھگیوں پر مشتمل آبادی 'الیاس گوٹھ' کے مکین اپنے بچوں کو اس لئے سکول نہیں بھیج سکتے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ یا بچوں کے فارم ب موجود نہیں ہیں اور کچھ کے پاس شناختی کاغذات تو موجود ہیں مگر قریبی سرکاری سکول کم از کم 1 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور چھوٹے بچوں کے لئے پیدل سفر ممکن نہیں، اسی طرح نجی سکول پیدل مسافت پر موجود ہیں مگر ان کی فیس ادا کرنا ان مکینوں کے لئے ممکن نہیں ہے۔ عمومی طور پر چاہنے کے باوجود بھی یہ والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کر پاتے۔
غربت، غیر رسمی صنعتیں اور بچے
کراچی کی ایک اور کچی آبادی غریب آباد میں سکول کے مالک اور استاد صغیر احمد انصاری کے مطابق آبادی کے 30 فیصد مکین اپنے بچوں کو سکول میں داخل نہیں کراتے جبکہ سرکاری اور نجی سکولوں میں اندراج کا تناسب 30، 40 فیصد ہے۔ نجی سکول کی ماہانہ فیس 500 روپے ہے جو کہ 2.76 امریکی ڈالر کے برابر ہے نجی سکول میں داخل طلبہ میں 45 فیصد کے والدین یہ فیس بھی ادا نہیں کر پاتے۔ صغیر صاحب کے مطابق ہم فیس ادا نہ کرنے کی بنیاد پر بچوں کو سکول سے فارغ نہیں کرتے بلکہ ان کے والدین کو کہتے ہیں کہ کم از کم موجودہ مہینے کی فیس ادا کر دیں، مقصد صرف یہی ہے کہ بچے کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ سکول سے فارغ کئے جانے پر وہ بچہ گلی محلے میں کھیلنے کے سوا کوئی کام نہیں کرے گا۔ اس آبادی کی اکثریت مزدور پیشہ طبقے پر مشتمل ہے۔ اکثر افراد 10 سے 12 سال کی عمر میں پہنچنے پر بچوں کو سکول سے نکال کے قریبی مارکیٹ اور غیر رسمی صنعتوں میں جیسے کہ پرانے فرنیچر اور گتے کی صنعت میں لگا دیتے ہیں۔
معاشرے کا نظر انداز حصہ اور معیاری تعلیم تک رسائی
کچی آبادیاں معاشرے کا ایک نظر انداز حصہ ہیں اور استحصال کرنے والے افراد کی ایک بڑھتی ہوئی طاقت کو بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ وہ پسماندہ طبقہ ہے جس کو تسلیم ، حقوق اور خود مختاری کے سخت مقابلوں کا سامنا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے شہر کراچی کی سطح پر حکام، اداروں اور ان برادریوں کے درمیان رابطہ منقطع نظر آتا ہے۔ مزید یہ کہ ان آبادیوں کو غیر قانونی گردانے جانے سے دستاویزات اور اندراج کے مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ترقیاتی منصوبوں کے تحت کی جانے والے بے دخلیاں، مسماری اور نقل مکانی بھی کراچی کی کچی آبادیوں کے سکولوں میں بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح کو بڑھا رہی ہے۔ جیسا کہ کراچی سرکلر ریلوے، گجر اور اورنگی نالے سے ملحقہ آبادیوں میں دیکھنے میں آیا۔
معیاری تعلیم کے لیے بہتر شہری منصوبہ بندی کی ضرورت
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ روشنیوں کا شہر کراچی، کچی آبادی کے رہائشیوں کی زندگی کو تعلیم کی شمع سے روشن کرنے میں ناکام ہے۔ کچی آبادیوں میں معیار زندگی کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ بنیادی خدمات جیسے بجلی، پانی، مناسب نقل وحمل، اور سستی رہائش کے ساتھ سکولوں کے قیام اور ترقی جیسے عوامل پر توجہ ضروری ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں میں سکول جانے کی عمر کے بچوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے ناصرف تعلیمی شعبے کے اخراجات کو بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ شہری منصوبہ بندی میں تبدیلی کی پالیسیوں کی فوری ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معیاری تعلیم کے لیے بہتر شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں کوترقی دینے کے لئے معاشرے کے ان پسماندہ طبقات کی ضروریات پر توجہ دیتے ہوئے بغیر کسی فرق کے ان کے حقوق بشمول رہائش، لباس، خوراک اور تعلیم کی فراہمی پر ازسرنو غور اور اس کے لئے تنظیم نو کی جائے۔ اس کے لئے ایسی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے جو پالیسی سازوں اور ریاست پر دباؤ ڈالے کہ وہ ان ناجائز معاشرتی مقامی ڈھانچے کو ختم کرے اور ہر ایک کو تعلیم کا حق دے۔