وفاقی وزیر اور پی پی رہنما شیری رحمان نے ٹویٹ میں لکھا کہ صدرمملکت نے سپریم کورٹ بل نظرثانی کیلئے واپس بھیج کرثابت کردیا کہ وہ ملک کے صدر مملکت نہیں بلکہ ابھی بھی تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے ہر فیصلے کو تحریک انصاف کی نظر سے دیکھا ہے۔ وہ بل موصول ہونے سے پہلے ہی انٹرویو میں اس پر اپنا مؤقف دے چکے تھے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا کہ لہذا صدرعارف علوی اپنی پارٹی پالیسی کی پیروی کر رہے ہیں۔ صدر کے آئینی عہدے کی نہیں۔ وہ کہہ رہے کہ یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے؟ صدر عارف علوی ساڑھے 3 سال صدر ہاؤس کو آرڈیننس فیکٹری کی طرح چلاتے رہے۔وہ پارلیمنٹ کے اختیارات سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں۔ صدر پارلیمنٹ کو قانون سازی نا سکھائیں۔
https://twitter.com/sherryrehman/status/1644592785117282306?s=20
واضح رہے کہ صدرِمملکت عارف علوی نے عدالتی اصلاحات بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے مؤقف اختیار کیا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے جبکہ بل قانونی طورپر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنےاور دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔
صدر عارف علوی نے مزید کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے۔مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔ مجوزہ بل کامقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔
صدر مملکت نے سوال اٹھایا کہ کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔آئین ایک اعلیٰ قانون ہے کوئی عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کاروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی۔ سپریم کورٹ رولز 1980 پر سال 1980 سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کاروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے۔ آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کاروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔ آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔ آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے۔ آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے۔آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے۔فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔ فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔