وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا، کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا، ویران سرائے کا دیا ہے جو کون و مکاں میں جل رہا ہے، تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ؛ ان میں سے کوئی نہ کوئی سطر آپ کو ضرور جانی پہچانی لگے گی مگر شاید آپ اس کے تخلیق کار کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے۔ یہ خیال ایسے شاعر کے ہیں جو پچھلی صدی میں اردو نظم اور غزل کے ہر دلعزیز شاعر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقیدے کی وجہ سے جسے مین سٹریم سے اوجھل کر دیا گیا۔ ان کا تعلق احمدی فرقے سے تھا اور اب یہ حال ہے کہ پچھلی صدی کے اردو شاعروں کا تذکرہ جس بزم میں ہو رہا ہوتا ہے وہاں بھی ان کا نام سننے کو نہیں ملتا۔
اس گم نام شاعر کا نام عبید اللہ جبکہ تخلص علیم تھا۔ عبید اللہ 12 جون 1941 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد 1952 میں ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آ گیا اور انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد عبید اللہ علیم نے پوسٹ آفس کے بچت بینک میں ملازمت اختیار کرلی جو لگ بھگ ڈیڑھ برس تک جاری رہی۔ اس کے بعد تقریباً دو سال تک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں کام کیا۔
چند ملازمتوں کے بعد پھر سے تعلیمی سلسلہ بحال کیا اور 1969 میں کراچی یونیورسٹی سے اردو کے مضمون میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ مختصر دورانیے کے لیے ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور یہاں سے پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کر لی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سینٹر میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے 12 سال تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے ملازمت چھوڑنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پی ٹی وی کے حکام بالا سے اختلافات ان کے استعفے کی سب سے بڑی وجہ بنے۔ اس وقت تک ملک میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت قائم ہو چکی تھی اور بیش تر اختلافات عبید اللہ علیم کے عقیدے سے جڑے ہوئے تھے۔
عبید اللہ علیم کے ہم عصر شاعر اور دوست نصیر ترابی کہتے ہیں؛
'نوکری علیم کے مزاج کا ستارہ نہیں۔ ٹیلی ویژن کی نوکری 12 سال تک انہماک، لگن اور سرکشی کے ساتھ کی۔ علیم مزدوری تو کر سکتا ہے لیکن معذوری کے ساتھ جی حضوری نہیں کر سکتا۔ آمریت کے المیائی دور میں جہاں حلیے نہیں شجرے بدل رہے ہوں، جہاں ایمان کو زر کی دیمک چاٹ رہی ہو، جہاں قلم ازار بند ڈالنے کے کام آ رہا ہو، وہاں نوکری علیم جیسے تخلیقی اور حساس آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے۔'
شاعری کے مجموعے
بچپن ہی سے عبید اللہ علیم کو اچھے شعر یاد کرنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ شعروشاعری سے شغف کا نتیجہ تھا کہ 18 سال کی عمر ہی سے انھوں نے باقاعدہ شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ علم و ادب سے رغبت کے باعث 'نئی نسلیں' کے نام سے ایک ماہ نامہ بھی شائع کرتے رہے۔
عبیداللہ علیم کا شمار موجودہ دور میں اردو غزل اور نظم کے بہترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جدید اردو نظم اور غزل کا ذکر عبیداللہ علیم کے نام کے بغیر کسی صورت مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ سر تا پا شاعر تھے۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔
ان کی غزلوں اور نظموں کا پہلا مجموعہ 'چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں' 1974 میں شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی انعام سے نوازا گیا۔ اس زمانے میں عبید اللہ علیم کی شہرت اور ہر دلعزیزی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ان کے پہلے مجموعے کے پے در پے ایڈیشن چھپے۔ ان کی شاعری کی مانگ اتنی زیادہ تھی کہ اب تک اس مجموعے کے 20 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ 'ویران سرائے کا دیا' 1986 میں چھپا جس کے 6 سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ کلام 'نگار صبح کی امید' ہے جو 90 کی دہائی کے آخر میں چھپا۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کے کلیات 'یہ زندگی ہے ہماری' کے نام سے لندن سے شائع ہوئے اور اس کے بھی اب تک 8 سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
'کھلی ہوئی ایک سچائی' اور 'میں جو بولا' کے ناموں سے ان کی دو نثری تصانیف بھی شائع ہو چکی ہیں۔
تاہم پچھلی صدی جونہی رخصت ہوئی، عبید اللہ علیم کا نام بھی دھندلانے لگا۔ اب یہ عالم ہے کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی کتابوں کی دکان سے عبید اللہ علیم کی کوئی کتاب پرنٹ شدہ شکل میں دستیاب نہیں ہے۔
ہم عصر شعرا کی آرا
عبیداللہ علیم بحیثیت انسان کیسے تھے اور بطور شاعر ان کی شخصیت کیسی تھی، اس ضمن میں ان کے ہم عصر شعرا اور بہت قریبی دوستوں کے خیالات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
'علیمؔ سامنے کا دشمن اور پیچھے کا دوست ہے'
عبیداللہ علیم جون ایلیا کے بہت گہرے دوست تھے۔ انہوں نے جون ایلیا کے سرپھرے پن کو بہت قریب سے دیکھا اور جون ایلیا نے ان کی راست گوئی کو برداشت کیا۔ جب عبید اللہ علیم کا دوسرا شعری مجموعہ 'ویران سرائے کا دیا' شائع ہوا تو کراچی پریس کلب میں اس مجموعے کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ 6 جولائی 1986 کو ہونے والی اس تقریب میں جون ایلیا نے عبید اللہ علیم کے بارے میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کے بعض حصے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
جون ایلیا کہتے ہیں:
"علیم ایک سرکش، سرشور، پیکار طلب اور مردم آزار روح کا نام ہے جو انسانوں سے الجھتی پھرتی ہے۔ اس کی زبان میں زہر ہے اور جب وہ اپنی زبان کا زہر دوسروں کی سماعت میں گھول نہیں پاتا تو اس کی کنپٹی میں درد ہونے لگتا ہے، ایسا درد کہ جان کے لالے پڑ جائیں۔ اس کی شخصیت میں خنجر کی سی تیزی اور تلوار کی سی کاٹ ہے کہ جو بھی سامنے آیا وہ دونیم ہوا۔ پر یہ بات کون جانتا ہے کہ وہ سامنے کا دشمن اور پیچھے کا دوست ہے۔ سامنے والا اپنے آپ کو اس سے غیر محفوظ پاتا ہے مگر اس سے اگر کوئی غیر محفوظ ہے تو وہ خود ہے۔ وہ اپنی شہ رگ سے اپنا خون پیتا ہے۔"
جون ایلیا عبید کی شاعری سے متعلق کہتے ہیں:
"کھری شخصیت اور سچی شاعری خوش اخلاقی سے نہیں، تہذیب نفس سے پیدا ہوتی ہے اور تہذیب نفس میں نفس بھی شامل ہے اور نفس کُشی بھی۔ وہ یہ نکتہ سمجھ گیا ہے کہ کہاں جان سے گزرنا ہے اور کہاں جان کو آنا ہے اور وہ یہ دونوں کام پوری تن دہی سے انجام دیتا ہے۔ اپنے سینے میں خنجر اتارنے والا ہاتھ خود اُسی کا ہاتھ تھا کہ وہ یہ حق بھلا کسی دوسرے کو دینے والا کب ہے۔ اور میں سوچتا ہوں وہ حساب کتنا سخت تھا جو لمحہ لمحہ اس نے اپنے آپ سے لیا۔ وہ ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنے آپ کو کبھی کوئی رعایت نہیں دی۔ اس نے اپنے آپ پر سامنے سے بھی وار کیا ہے اور پیچھے سے بھی۔ علیم نے اپنے ساتھ مجھ سے بھی خون تھکوایا ہے کہ میں اس کا یار تھا۔"
'علیمؔ اردو شاعری کا عُرفیؔ ہے'
آگے جا کر جون ایلیا کہتے ہیں؛
'مجھے علیم کو دیکھ کر عُرفیؔ کا خیال آتا ہے۔ عُرفیؔ کی شخصیت کو ہمیشہ مسحوریت کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ عُرفیؔ کو زہر دے دیا گیا تھا اور وہ جوان مر گیا تھا۔ علیم اردو کا وہ عُرفیؔ ہے جو زہر کھا کر بھی زندہ ہے۔ ویسا ہی طرح دار، ویسا ہی طنّاز، ویسا ہی شفق فام اور ویسا ہی انا پرست۔ وہ محض ایک شاعر نہیں ہے، ایک اسلوب بھی ہے۔ لفظ سے اس کی وہ معاملت ہے جو ایک قرض دار سے سود خوار قرض خواہ کی ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کا سود خوار ہے اور لفظ سے ایک کے دو وصول کرتا ہے۔ اور میرے خیال میں شاعری ہے بھی ایک ایسا ہی معاملہ جس میں لفظ سے وہ کچھ وصول کر لیا جائے جس سے اس کی جَیب خالی دکھائی دے۔'
افتخار عارف عبیداللہ علیم کے بارے میں کہتے ہیں:
'ایک ہی نشست میں نظم یا غزل مکمل کر لینا کوئی عام بات نہیں ہے۔ عبیداللہ علیم کے لیے یہ عام بات تھی۔ انہوں نے بہت تواتر کے ساتھ اچھے شعر لکھے۔ بہت ہی طاقتور اور زندہ رہنے والے شعر کہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ شاعری کی کتابیں خریدی نہیں جاتیں کیونکہ لوگ پڑھتے نہیں ہیں۔ ' چاند چہرہ ستارہ آنکھیں' کے 17 باضابطہ ایڈیشن پاکستان میں شائع ہو چکے ہیں، 'ویران سرائے کا دیا' کے 6 ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ظاہر ہے لوگ عبیداللہ علیم کو پڑھتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں۔ کوئی اور شاعر اتنا عوامی اجتماعی ادبی حافظے میں محفوظ نہیں ہے جتنا عبید اللہ علیم محفوظ ہے۔'
نصیر ترابی کہتے ہیں:
'شاعری میں علیمؔ ذہن سے زیادہ باطنی لحن کو محترم سمجھتا ہے۔ وہ شعر میں شوربے والی تاثیر نہیں بلکہ وہسکی کی طرح تند و تیز چڑھنے اور متھے سے لڑ جانے والا اثر چاہتا ہے۔'
بڑے بڑے گائیکوں نے انہیں گایا
عبیداللہ علیم اپنا کلام بہت ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے اور مشاعروں میں خوب داد سمیٹتے تھے۔ ایک فطری نغمگی عبید اللہ علیم کے کلام میں رچی بسی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ گائیکوں میں بہت ہردلعزیز تھے۔ بڑے بڑے گائیکوں نے ان کے کلام کو اپنی آواز بخشی ہے۔
مہدی حسن، حبیب ولی محمد، تصور خانم، بلقیس خانم، فریدہ خانم، غلام علی، نورجہاں، رونا لیلیٰ، عابدہ پروین، روبینہ قریشی وغیرہ جیسے مغنیوں نے عبیداللہ علیم کی نظموں اور غزلوں کو گا کر انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔
وفات
عبید اللہ علیم 18 مئی 1998 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ انہیں کراچی میں سٹیل ملز کے نزدیک رزاق آباد میں باغ احمد نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
علیم کا نام گمنامی کا استعارہ کیوں بن گیا؟
حالانکہ ان کا زمانہ اتنا قدیم نہیں ہے، وہ برے شاعر بھی نہیں ہیں، نوجوانوں میں بھی بہت ہردلعزیز تھے، جون ایلیا کے جگری یار تھے، ادبی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر اور ترنم کے ساتھ اپنا کلام سنایا کرتے تھے، بڑے بڑے مشاعروں میں موجود ہوتے تھے، شاعری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے، پاکستان ٹیلی وژن کے اولین پروڈیوسروں میں سے تھے، شاعری کے تین اور نثر کے دو مجموعے شائع ہوئے مگر پھر بھی ہمارے ہاں کتنے لوگ ہیں جنہیں اب ان کا کوئی شعر زبانی یاد ہوگا، کتنے ایسے ہیں جنہوں نے ان کی پوری غزل سن رکھی ہو گی، کتنے ایسے ہوں گے جنہوں نے ان کا محض نام ہی سن رکھا ہوگا؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی کبھی علیم نے اسے شک کے پردے میں رکھنے کی کوشش کی کہ عقیدے کے لحاظ سے وہ احمدی تھے۔ مگر کیا ان کا محض احمدی ہونا اتنا بڑا عنصر ہے کہ ان کی ساری کی ساری شخصیت ہی کو چھپا دیا جائے اور ان کی شاعری کو پڑھنے والوں سے دور کر دیا جائے؟ یعنی اگر وہ احمدی ہیں تو کیا یہی ان کی واحد نمائندہ پہچان بنا دی جانی چاہئیے کہ اس سے آگے کچھ کہنے، سننے، پوچھنے، دریافت کرنے اور تحقیق کرنے کی گنجائش ہی نہ چھوڑی جائے؟ ایسی فضا کیوں بنا دی گئی ہے کہ ان کا نام ہی لینے سے ایمان خطرے میں پڑ جائے یا ان کی شاعری پڑھنے اور اس کی تعریف کرنے سے مخصوص قسم کا احساس گناہ جنم لینے لگ جائے کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں، ایک کافر کی تعریف اور تشہیر کر رہا ہوں؟ وطن عزیز کی فضا کو نفرت کی آگ کے ان شعلوں کے حوالے کس نے کر دیا ہے اور کب تک یہ فضا انہی شعلوں کے حوالے رہے گی؟
مان لیا وہ احمدی تھے اور احمدی مسلمان نہیں ہیں مگر وہ ایک انسان بھی تو تھے اور پھر وہ شاعر ہیں اور یہاں تک ہی بات نہیں رکتی، وہ بہت عمدہ شاعر ہیں۔ پچھلی صدی کے دوسرے نصف حصے کے پاکستانی شاعروں میں ان کا مقام بہت نمایاں ہے۔ عقیدے کی عینک اتار کے ان کی شاعری کو دیکھا جائے اور خاص طور پہ ان کی غزلوں کا مطالعہ کیا جائے تو احساس ہوگا کہ وہ غزل کا محض ایک اور شاعر نہیں بلکہ بہت بڑا شاعر ہے۔ عبید اللہ علیم کے بارے میں بڑے بڑے سخن شناسوں کی یہی رائے ہے مگر بچوں جیسے اس کے نازک، ملائم، ریشمی اور معصوم خیالوں پر سیاہی پوت دی گئی۔ نہ جانے کیسی آندھی چلا دی گئی کہ ان کی ترکیبوں، تشبیہوں، استعاروں، قافیوں، ردیفوں کو عقیدوں کے فرق کی آگ نے جھلسا کے رکھ دیا۔
اگر صرف صحیح، سچے اور پکے مسلمانوں ہی کی تخلیقات کو حلال قرار دینے کی روایت جڑ پکڑ جائے تو پھر ہمارے پاس بچے گا کیا؟ کسی ایک مذہب یا مسلک کے لوگوں کی اجارہ جاری نہیں ہے کسی بھی فن پر، یہاں سبھی اطراف سے فیض یاب ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر یہ حد بندیاں قائم کر دی جاتی ہیں کہ مسلمان کسی قابل اعتراض یا ممنوعہ عقیدے کے مالک شخص کی تخلیقات کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیں تو اس میں کسی غیر مسلم، مشرک، کافر، آدھے مسلمان، منافق، فاسق، دہریے وغیرہ وغیرہ کا تو پتہ نہیں نقصان ہوگا یا نہیں مگر مسلمانوں کا اپنا بہت نقصان ہو گا۔