پھر کیا ہو گا؟
جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم ہوجانے سے بین الاقوامی طور پر مسئلہ کشمیر کی حیثیت کیا رہے گی؟ کیا کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دو طرفہ مسئلہ بھی رہے گا یا اب محض بھارت کا اندرونی معاملہ قرار پائے گا؟
کیا نریندرا مودی نے مسئلہ کشمیر ختم کردیا ہے یا مزید الجھا دیا ہے؟ پاکستان کے پاس اب کون سے آپشنز باقی رہ گئے ہیں, اور کشمیریوں کی فریڈم فائٹ کیا دم توڑ دے گی؟
ان سوالوں کے جوابات ہندوستان, پاکستان اور جموں و کشمیر کے وہ تمام دماغ مانگتے ہیں جن کا بالواسطہ یا براہ راست مستقبل اس مسئلے سے جڑا ہے.
آئیے ان تمام تر سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں. سب سے پہلے تو اس مسئلے کو سمجھنے کیلئے ہمیں بھارت کے آئین اور پھر اس میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو سمجھنا ہو گا.
بھارت کا آئین بنیادی طور پر وفاقی نوعیت کا ہے جس کا دائرہ کار 28 ریاستوں اور 7 یونین علاقہ جات تک یکساں پھیلا ہے، سوائے واحد ریاست جموں و کشمیر کے، جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت ملنے کی وجہ مہاراجہ ریاست کی جانب سے بھارت کیساتھ مشروط الحاق تھا. مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریتی ریاست کے پاکستان میں چلے جانے کے خوف سے نہرو حکومت کے ساتھ دفاع, خارجہ امور اور مواصلات کو یونین حکومت کے سپرد کرنے کی منظوری دی اور طے پایا کہ باقی تمام امور پر ریاست خود سے قانون سازی کرے گی، اس مقصد کیلئے اس وقت بھارتی آئین میں ایک نئے آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا گیا۔ آرٹیکل 370 نے ریاست جموں و کشمیر کو چھے مخصوص اختیارات دئیے جو درج ذیل ہیں۔
- آرٹیکل 370 نے بھارت کی باقی ریاستوں کے برعکس ریاست جموں و کشمیر کو یہ حق دیا کہ اس پر بھارتی آئین مکمل طور پر لاگو نہیں ہو گا.
- بھارتی پارلیمنٹ کی ریاست جموں و کشمیر سے متعلق قانون سازی محدود ہو گی. یونین / مرکزی حکومت صرف دفاع, خارجہ اور مواصلات سے متعلق قوانین ہی ریاست پر لاگو کرسکے گی.
- مذکورہ تین امور کے علاوہ کوئی بھی مرکزی قانون محض خود ریاست جموں و کشمیر کی مرضی سے مشروط ہوگا
- کسی بھی قانون کی منظوری محض عارضی بنیادوں پر قائم ہو گی جس کی مستقل منظوری ریاست جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی دے گی.
- ریاستی حکومت کو کسی بھی قانون کی منظوری کا اختیار تب تک ہو گا جب تک ریاستی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتا. ایک بار ریاستی اسمبلی کی جانب سے اسکیم آف پاور فائنل ہو جائے تو اسمبلی منتشر ہونے کے بعد مرکزی اسمبلی کو مزید کسی قسم کی پاور ایکسٹنشن نہیں دی جائے گی۔
- آرٹیکل 370 کو منسوخ, معطل یا اس میں کسی قسم کی ترمیم صرف ریاستی اسمبلی کی تجویز پر ہی کیا جا سکے گا.
آئینی عمل کو پورا کرنے کیلئے ریاست جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 31 اکتوبر 1951 کو بلایا گیا جو کہ 17 نومبر 1956 کو قانون سازی کا عمل مکمل کرکے تحلیل ہوئی. اسمبلی نے اپنے داخلی امور پر قانون سازی کے علاوہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منظوری بھی دے دی. یوں دفاع, خارجہ اور مواصلات مرکز کے پاس چلے گئے. ممبئی سے تعلق رکھنے والے معروف بھارتی ماہر قانون اے جی نورانی کے مطابق ریاستی اسمبلی سے منظوری کے بعد اب آرٹیکل 370 دو ریاستوں کے درمیان ایک ایسا " مقدس معاہدہ" بن چکا ہے جسے یکطرفہ طور پر بھارت یا ریاست جموں و کشمیر ختم یا ترمیم نہیں کرسکتی.
بعد میں آرٹیکل 370 کی شق 1 کے تحت صدر ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر کی مقامی حکومت کی تجویز پر آرٹیکل 370 میں کئی ترامیم بھی کیں. لیکن یہ ترامیم مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر کی اسمبلی کے درمیان باہم رضامندی سے ہوئیں جن پر صدارتی احکامات جاری کئے گئے. ریاستی اسمبلی کی تجویز پر ایک صدارتی حکم نامہ 1952 میں جاری کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر میں بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا اور مہاراجہ کی جگہ آئین میں صدر ریاست کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ صدر ریاست بنے. صدر ریاست کا عہدہ بعد میں گورنر کے نام سے موسوم کیا گیا. دوسرا اہم صدارتی حکم نامہ 14 مئی 1954 کو جاری کیا گیا جس کے تحت آرٹیکل 370 میں 35 اے کا اضافہ بھی کیا گیا. 35 اے دراصل نہرو حکومت اور شیخ عبداللہ کے درمیان مشہور دہلی معاہدے کا نتیجہ تھا. 35 اے درحقیقت جموں و کشمیر کے لوگوں کو وہ حقوق دیتا ہے جن کا تعلق 1927 کی مہاراجہ حکومت سے تھا. مہاراجہ کی ریاست میں غیر کشمیریوں پر کشمیر میں جائیداد کی خریداری پر پابندی تھی. جسے بھارت کیساتھ الحاق کی صورت میں بھی برقرار رکھا گیا. دراصل آئین کی یہ شق مسئلہ کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کا ایک اہتمام تھا جس کے تحت مستقبل میں ریفرنڈم کی صورت میں ریاستی عوام کے ووٹ کا تحفظ یقینی بنایا گیا. 1954 کے اس صدارتی حکم نامے میں دوسری اہم بات جموں و کشمیر کے عوام کو بھارتی شہریت دینا ہے جس کے تحت کشمیریوں کو بھارتی شہریت ملی. جبکہ تیسری سب سے اہم بھارتی سپریم کورٹ کی قانونی رٹ (jurisdiction) کو کشمیر تک رسائی دینا ہے اور بھارتی آئین میں شامل تمام بنیادی انسانی حقوق کا کشمیر میں بھی نفاذ کیا گیا. چوتھی ترمیم مرکزی حکومت کو بیرونی حملے کی صورت میں ریاست میں ایمرجنسی لگانے کی اجازت تھی۔
آرٹیکل 370 میں ہونے والی یہ تمام تر ترامیم یکطرفہ نہیں تھیں بلکہ ریاستی اسمبلی اور مرکزی حکومت کے مابین گفت و شنید کے بعد باہم رضامندی کے بعد کی گئیں. مجموعی طور پر ریاستی اسمبلی / حکومت اور مرکز کے درمیان باہمی رضامندی سے آرٹیکل 370 میں بے شمار تبدیلیاں کی گئیں جس کے لئے تقریبا 50 صدارتی حکم نامے جاری ہوئے۔
اب آتے ہیں موجودہ صدارتی حکم نامے کی طرف جس کے ذریعے مودی سرکار نے کرنے کا اعلان کیا ہے. جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آرٹیکل 370 دراصل بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ترمیم یا اسکی منسوخی یکطرفہ نہیں ہو سکتی. مرکزی حکومت صدارتی حکم نامہ صرف تب ہی جاری کر سکتی ہے جب ریاستی حکومت کی رضامندی بھی اس میں شامل ہو. مگر یہاں بھارت سرکار نے بہت ہوشیاری کیساتھ کام لیا ہے. مودی سرکار نے صدارتی حکم نامہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا ہے جب جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی موجود ہی نہیں تھی. واضح رہے کہ محبوبہ مفتی کی اتحادی حکومت اپنی اکثریت کھو جانے کے باعث گزشتہ سال ختم ہو گئی تھی جس کے بعد سے تاحال ریاست جموں و کشمیر میں عوام کی نمائندہ حکومت موجود نہیں ہے. ریاستی اسمبلی اس وقت تحلیل ہے. وہاں کوئی وزیر اعلی نہیں ہے. ایسے وقت میں جب ریاستی حکومت اپنا وجود نہیں رکھتی جموں و کشمیر کی ریاست گورنر راج کے زیر سایہ کام کررہی ہے. مودی سرکار نے یہ چالاکی اختیار کی کہ ریاست میں عوامی نمائندہ حکومت کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنر سے بطور ریاستی سربراہ صدارتی حکم نامے پر دستخط لئے, جو کہ خود مرکز کا نمائندہ ہے. حالانکہ قانونی طور پر مودی حکومت کو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کیلئے ریاست میں اگلی حکومت کے وجود میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے تھا. لیکن چونکہ جموں و کشمیر میں اس وقت کوئی ایک بھی ایسی جماعت نہیں ہے جو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی حامی ہو لہذا مودی سرکار نے اپنے ہی گورنر کے ذریعے ریاستی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا مناسب وقت یہی چنا. آئینی طور پر گورنر کسی بھی ریاست میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے ناکہ ریاست کا. ایسے میں قانونی ماہرین کیمطابق بھارت کا یہ اقدام نہایت کمزور گراؤنڈ رکھتا ہے. انڈین آئین کے آرٹیکل 367 کیمطابق صرف گورنر کی رضامندی نہیں بلکہ متعلقہ کابینہ اور وزیر اعلی کی رضامندی لازمی شامل ہونی چاہیے. مگر یہاں بھی مودی حکومت نے آرٹیکل 367 کی شق 4 میں ترمیم کرتے ہوئے کابینہ اور وزیر اعلی کی بجائے صرف گورنر کا لفظ شامل کردیا ہے تاکہ ان کے اس اقدام کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔
کیا یہ سب کچھ اب بھی جائز قانونی حیثیت رکھتا ہے؟
ان تمام پر پیش بندیوں کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گورنر کسی ریاست کا نمائندہ کیسے ہو سکتا ہے. قانون سازی کا یہ طریقہ غیر جمہوری ہے. یہاں میں اکتوبز 2015 کا ایک جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دوں گا جس میں لکھا گیا کہ " the Article 370 cannot be abrogated, repealed or even amended. It explained that the clause (3) of the Article conferred power to the State's Constituent Assembly to recommend to the President on the matter of the repeal of the Article. Since the Constituent Assembly did not make such a recommendation before its dissolution in 1957, Article 370 has taken on the features of a "permanent provision" despite being titled a temporary provision in the Constitution"
بالکل واضح طور پر عدالتی تشریح میں لکھا گیا ہے کہ چونکہ آرٹیکل 370 کی شق 3 "صرف ریاستی دستور ساز اسمبلی" کو ہی یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اس آرٹیکل کو منسوخ / ترمیم کرسکیں. چونکہ دستور ساز اسمبلی 1957 میں آئین تیار کرکے آرٹیکل 370 کو چھیڑ چھاڑ کئے بغیر خود تحلیل ہو گئی تھی لہذا اب اس آرٹیکل کی حیثیت عارضی نہیں مستقل ہے۔
نہ صرف ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر بلکہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں آر ایس ایس 2014 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کیلئے رٹ فائل کرچکی ہے جس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے. 3 اپریل 2018 کو ایک سماعت کے دوران معزز عدالت کے ریمارکس سامنے آئے تھے کہ آرٹیکل 370 کی نوعیت عارضی نہیں بلکہ یہ آرٹیکل اب مستقل انڈین آئین کا حصہ بن چکا ہے. تو یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس اور ہائی کورٹ میں جو تشریح سامنے آئی ہے کیا وہ غلط ہے یا مودی سرکار جو آرٹیکل کو عارضی تصور کرتے ہوئے اسکے خاتمے کا اعلان کرچکی ہے ؟ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ معاملہ جب عدالت میں زیر سماعت ہے تو کیا مرکزی حکومت کا یہ اقدام قانونی ہے یا غیر قانونی؟ اگر خدانخواستہ بھارتی سپریم کورٹ آر ایس ایس کے مقدمے کا فیصلہ موجودہ اقدام کے کرعکس سناتی ہے تو صدر کے اس حکم نامے کی حیثیت کیا رہے گی؟
ایک اور پہلو: معاملے ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ متنازعہ علاقہ ہے. ایسے خطوں / علاقوں میں قابض ریاستوں کی قانون سازی بین الاقوامی طور پر کیا حیثیت رکھتی ہے. کیا بھارت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامیت کو ختم کرسکتا ہے؟ ماہرین کے نزدیک قابض ریاستوں کے ایسے اقدامات محض عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں. انہیں اقوام متحدہ میں محض انتظامی حیثیت ہی دی جاتی ہے. اسی طرح گلگت بلتستان جو کہ 1947 سے قبل ریاست جموں و کشمیر کا باقاعدہ حصہ تھا آج پاکستان کے زیر انتظام آ چکا ہے مگر جموں و کشمیر کے مستقل حل کی خاطر جب بھی ریفرنڈم ہوا اس میں گلگت بلتستان کو شامل ہونا پڑے گا۔
تو پھر کیا اب مودی سرکار نے مسئلہ کشمیر ختم کردیا یا مزید الجھا دیا؟ میرے خیال سے مودی حکومت نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کیلئے مشکل صورت حال پیدا کر لی ہے. تاہم اس حماقت کا پاکستان کتنا فائدہ اٹھاتا ہے یہ سوال اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں. 1 پاکستان 2 بھارت اور 3 جموں و کشمیر کی عوام. بھارت نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے. بظاہر بھارت کا یہ اقدام اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ ہندوستان مسئلے کو دو طرفہ کی بجائے اب پھر سے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے گا۔ پاکستان کیلئے یہ نادر موقع ہے۔ ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ پاکستان کو سب سے پہلے شملہ معاہدے سے دستبردار ہونا چاہیے، یوں کہ پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ بھارت کے راگ کو جھٹلاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ کی بجائے بین الاقوامی مسئلے کے طور پر پھر سے اجاگر کرے. یہ آپشنز بھی دیکھے جانے چاہیں کہ کیا اقوام متحدہ میں ازسرنو مقدمہ رکھا جائے یا پرانی قراردادوں پر عمل در آمد کا مطالبہ دہرایا جائے. مسئلے کا تیسرا فریق بنیادی طور پر پہلا اور بنیادی فریق ہے. کشمیری عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ جس سے چاہیں اپنے سیاسی مستقبل کو جوڑیں. اگر وہ ایک آزاد ریاست کی طرف جانا چاہیں تو انہیں یہ بنیادی سیاسی حق بھی حاصل ہے. سرحد پار جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ بھارت سے الحاق کو ختم کرنے کا اعلان کردیں. چونکہ بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان الحاق کی واحد رسی آرٹیکل 370 ہے لہذا کشمیری لیڈرشپ کو بھارتی حکومت سے صاف صاف کہ دینا چاہیے کہ آپ نے دو طرفہ معاہدے کی پاسداری نہیں کی لہذا ہم آپ سے ہمیشہ کیلئے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور فوری طور پر مہاراجہ کی ریاست سے انڈین آرمی کے انخلاء کا مطالبہ کیا جانا چاہیے. حریت قائدین تو پہلے ہی اس دو طرفہ معاہدے کو قبول نہیں کرتے تھے اب محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی جماعتوں کو بھی سوچنا ہو گا. ایسی صورتحال میں جب کہ پاکستان الگ دباؤ ڈال رہا ہو بھارت بری طرح پھنس جائے گا. یوں معاملہ بین الاقوامی سطح پر مؤثر ہو کر ابھرے گا.
ٹرمپ ثالثی کے کیا کوئی آثار ہیں؟
میرے خیال میں جو حماقت بھارت کر چکا ہے اس کے بعد اگر پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام ملکر بھارت پر دباؤ بڑھائیں تو شاید ٹرمپ ثالثی ہی بھارت کے پاس واحد آپشن بچتی ہے.
قیاس آرائیاں تو ہر پہلو پر ہورہی ہیں. بعض حلقوں میں بھارت کے موجودہ اقدام اور اس پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی چپ کو معنی خیز قرار دیا جارہا ہے. جموں و کشمیر میں جو ہونے جارہا تھا کیا پاکستان اس سارے معاملے سے لاعلم تھا. پاکستانی ریاست اتنی بڑی ڈویلپمنٹ کو کیا مانیٹر نہیں کرپائی، ماضی کے برعکس اس بار پاکستانی روئیہ مختلف نظر آنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کہیں مشرف فارمولے کے تحت کسی آپشن پر غور تو نہیں کیا جا رہا۔ ٹرمپ ثالثی ہو گی یا دو طرفہ بیک ڈور ڈپلومیسی، آنے والا وقت جموں و کشمیر کے حوالے سے اہم پیش رفت جلد سامنے لانے والا ہے۔
.