جمعہ کو جب ایک دن کے بعد اسمبلی کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وزرا سمیت اس بل کے مخالفین اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور 22 جولائی کو ایوان سے منظور تحفظ بنیاد اسلام بل کے خلاف احتجاج کیا۔
حکومتی اراکین نے مذکورہ قانون سازی کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا۔ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے قانون ساز حسین جہانیاں گردیزی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وفاقی شریعت عدالت کی منظوری سے بل میں ترمیم کرے جبکہ وزیر قانون محمد بشارت راجہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ اراکین میں اتفاق رائے تک بل پر مزید پیشرفت نہیں کی جائے گی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے پیر اشرف رسول نے دعویٰ کیا کہ یہ بل وزیر اعظم کے خصوصی مشیر شہزاد اکبر کے مشورے پر منظور کیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی یاور عباس بخاری نے اس بل کی حمایت کرنے پر ایوان سے معافی مانگی۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے متعدد قانون سازوں نے الزام لگایا کہ جب اس دستاویز کو ووٹ کے لیے پیش کیا گیا تو انہیں اس کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا، انہوں نے اعتراض کیا کہ ایوان کسی بھی فرد کو اس بات کی ہدایت نہیں کر سکتا کہ اسے کس فرقے سے تعلق رکھنا چاہیے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بل سے صوبے میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا ہو گی۔
انہوں نے تمام مکاتب فکر پر مشتمل علما کی کمیٹی سے سفارشات طلب کرتے ہوئے بل کی واپسی اور اس میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔
پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ جو کمیٹی کے رکن بھی تھے، نے بھی اس بل کو مسترد کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ پینل کا حصہ تھے لیکن انہیں جانچ پڑتال کے عمل سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
اس پر وزیر قانون نے کہا کہ بل پر اس کی منظوری کے بعد اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور اسی لیے اسے قانون کی شکل دینے اور دستخط کرنے کے لیے گورنر کو نہیں بھیجا گیا۔ سب کے تحفظات دور کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کے سلسلے میں علما کی رائے لینا ہو گی اور ایوان کو یقین دلایا کہ قانون سازوں میں مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے تک اس بل پر مزید پیشرفت نہیں ہو گی۔
وزیر نے اراکین اسمبلی پر بھی طنز کیا کہ ان کا فرض ہے کہ ہر بل کو ووٹ ڈالنے یا اس کے خلاف جانے سے پہلے پوری طرح سے پڑھیں۔
بعدازاں راجہ بشارت نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس بل سے متعلق تنازع اور اس بارے میں تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت جو اقدامات اٹھائے گی اس سے آگاہ کیا۔