خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعہ گذشتہ سال ستمبر میں پیش آیا تھا، جس میں چھ سالہ زینب لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھیں، علاج کے دوران ڈاکٹرز نے اچانک بچی کا علاج کرنا بند کر دیا اور بچی کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا، والد کے روکنے پر اس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا، پولیس ڈاکٹر راشد کو ہسپتال میں گھسیٹتی رہی، اسی دوران ڈاکٹر راشد کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں ہسپتال میں فوری داخل کر لیا گیا۔
لندن کے ڈاکٹرز کی جانب سے بچی کو وینٹی لیٹر پر ہٹانے سے اس کا انتقال ہوگیا، ہسپتال میں ہوئے افسوسناک واقعے کا علم ہونے پر عدالت نے میڈیا کو اس واقعے کی کوریج سے روک دیا، جس کے بعد بھی یہ واقعہ تقریباً ایک سال تک دبا رہا، لیکن اب بھی پولیس کی جانب سے مذکورہ واقعہ کے حوالے سے مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
لندن سے خبررساں ادارے کے نمائندے کا مذکورہ واقعہ کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لندن پولیس کی جانب سے مذکورہ واقعے کی تفتیش اب تک شروع نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس کے سے متعلق مرکزی کرداروں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے، عدالت کی جانب سے عائد کی گئی پابندی کی وجہ سے ان ڈاکٹرز کے نام بھی سامنے نہیں آسکے جنہوں نے بچی کو وینٹی لیٹر سے ہٹا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔
دوسری جانب اپنی لخت جگر کو کھو دینے والے پاکستانی نژاد ڈاکٹر راشد عباسی کا خبر رساں ادارے کو مذکورہ واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری ایک ہی بیٹی تھی جبکہ اس سے پہلے ہمارے تین بیٹے تھے، جو لندن کے ڈاکٹرز کی بے رحمی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔
نارتھمبریا پولیس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہیں ہسپتال سے ایک کال موصول ہوئی تھی کہ ایک شخص سٹاف سے زیادتی کر رہا ہے اور اس نے کنسلٹنٹ پر بھی حملہ کیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہم ایک سول کلیم کا جائزہ لے رہے ہیں اس لئے اس مرحلہ پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔