ابتدا میں اس کارروائی کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کی ذیلی شاخ جماعت الاحرار نے قبول کی۔ تاہم، ملک میں خوف و ہراس کی لہر اس وقت دوڈ گئی جب داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس وقت ن لیگ کی وفاقی حکومت نے اس کارروائی کو بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی کارستانی قرار دیا جب کہ بلوچستان کی نون لیگی حکومت نے بھی اسی قسم کے بیان دیے۔ تاہم، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ایف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے اسے پاکستان کی اینٹیلیجنس ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
بلوچستان میں ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے 13 سالوں میں اوسطاً پانچ بڑے اور چھوٹے دہشتگردی کے واقعات فی سال ہوئے ہیں۔ ان میں اوسطاً 65 افراد اپنی جان سے جاتے۔ لیکن اسپتال حملہ ایک طرح سے مختلف ایسے رہا کہ اس کی گونج پورے ملک میں سنی گئی اور وکلا کی وجہ سے اس کو سیاسی قوت بھی ملی۔ اس کا مزید الگ نوعیت کا پہلو یہ رہا کہ اس واقعے کی وجوہات اور اس کے ذمہ دار عوامل اور شخصیات کے تعین کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل یک رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے 56 دنوں میں تحقیقات کرتے ہوئے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جع کروائی جس نے پاکستان کے سکیورٹی آپریٹس پر ایسے ایسے سنگین سوالات اٹھائے کہ اگر ان کے جوابات مل جائیں اور ان کی روشنی میں اصلاح کر لی جائے تو پاکستان میں شاید دہشت گردی کی کمر واقعی ہی ٹوٹ جائے۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ بلوچستان حکومت نے جس طرح کی بیان بازی کی، اس سے حملے کی تحقیقات اور حکومت پر سے عوام کے اعتبار کو ٹھیس پہنچی۔ تاہم، سب سے زیادہ سوالات اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی کاکردگی اور کردار پر اٹھائے گئے۔ چوہدری نثار کو سکیورٹی معاملات سے نابلد قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے انہوں نے نیکٹا کے چیئرمین کے طور پر صرف ایک میٹنگ لے کر اس ادارے کو غیر فعال رکھا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ وزارت داخلہ کے پاس سکیورٹی کا کوئی مجموعی خاکہ، کوئی منصوبہ اور کوآرڈینشین نہیں تھی۔ وزارت لیڈرشپ اور وژن کے بغیر ابہام کا شکار تھی۔
اس رپورٹ نے وزارت داخلہ کی مجرمانہ غفلت کا بھی نوٹ کیا جس میں لکھا گیا کہ ملک میں ایسی جماعتیں جن کو کالعدم قرار دیا جانا لازمی تھا اور اس بارے میں سفارشات بھی تھیں، انہیں کالعدم قرار دینے میں جانتے بوجھتے ہوئے دیر کی گئی۔ وزیر داخلہ کالعدم جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ بلوچستان حکومت نے بارہا لشکر جھنگوی کی ذیلی جماعت العالمی کو کالعدم قرار دینے کی درخواست وفاقی وزارت داخلہ کو بھجوائی لیکن اس میں بھی بہت دیر کی گئی۔ خفیہ ایجنسیوں سے ملنے والی معلومات متعلقہ اداروں تک نہ پہنچ سکیں اور اس پر عمل نہ ہونے سے نقصان ہوا۔ رپورٹ نے اس وقت کے حکومتی بیانیے کہ یہ سب افغانستان سے آپریٹ ہوا کے برعکس واضح لکھا کہ یہ مقامی امداد اور افراد کے بغیر ممکن نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ چوہدری نثار نے کالعدم جماعتوں کو جلسوں کی اجازت بھی دی تھی۔
رپورٹ نے حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر اقربا پروری کے تحت ہونے والی تعیناتیوں کو بھی بڑا مسئلہ قرار دیا جیسا کہ اس وقت کے وفاقی سیکرٹری ہیلتھ جو کہ وفاقی وزیر اور ایک ریٹائرڈ جنرل کے بھائی تھے۔
نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں بھی رپورٹ میں مشاہدات موجود تھے۔ جس میں لکھا گیا کہ یہ پلان کسی بنیاد کے بغیر تھا۔ یہ معنی خیز نہ تھا جب کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی نگرانی کا فقدان تھا۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ انسداد دہشتگردی قانون کو صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے، کالعدم جماعتوں کو بروقت کالعدم قرار دیا جائے اور دہشت گردوں کی سیاسی حمایت کو فوری ختم کیا جائے۔
آئی ایس آئی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کا کوئی پتہ، ویب سائٹ یا نمبر نہیں ہے۔ یہ الگ تھلگ رہتی ہیں اور اس لئے احتساب سے بھی بالا ہیں اور عوام کو جوابدہی کا تصور یہاں عنقا ہے۔ جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ میڈیا کے کردار پر بھی اس رپورٹ میں بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ میڈیا ہمیشہ دہشتگردوں کے پراپیگنڈے کو ہی کوریج دیتا ہے جب کہ دہشتگردی کے متاثرین کو کم ہی اپنی کوریج میں شامل کرتا ہے۔ یہ قانون کے مطابق جرم بھی ہے۔ ایسا کرنے والے میڈیا کے حصے کو قانون کے مطابق ڈیل کرنا چاہیے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی یہ رپورٹ انسداد دہشتگردی پروگرام میں موجود تمام سقم واضح کرتی ہے۔ خاص کر اس وقت طاقت میں بیٹھے ان چند کرداروں کو بھی بے نقاب کرتی ہے جو اپنے وزیر اعظم کے بیانیے کے برخلاف کام کرتے رہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اس رپورٹ کے آخر میں ان تمام مسائل کا واحد حل تجویز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حل اسی میں ہے کہ قوانین کا نفاذ کریں اور ان کی پابندی کریں، انسداد دہشتگردی ایکٹ، نیکٹا ایکٹ، تعزیرات پاکستان اور سب سے بڑھ کر آئین پاکستان، سب کی پابندی کریں کہ خرابی قوانین کے نہ ہونے سے نہیں ان پر عمل نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔