اس وقت وطن عزیز میں ملتان کا ضمنی انتخاب موضوع بحث بنا ہوا ہے جہاں سے دو پیر خاندانوں کی اولادیں آمنے سامنے ہیں، یہ سیٹ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے خالی کی تھی کیونکہ وہ پنجاب اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے منحرف رکن شیخ سلمان کے خلاف الیکشن لڑنا چاہتے تھے، خیر پنجاب اسمبلی کے اس ضمنی انتخاب میں زین قریشی جیت گئے، اب اوپر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن ہونا ہے جہاں سے اب شاہ محمود قریشی کی دختر اور زین قریشی کی ہمشیرہ شہربانو قریشی امیدوار ہیں جبکہ انکے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار جن کو مسلم لیگ ن فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت حاصل ہے موسیٰ گیلانی الیکشن لڑ رہے ہیں ،جو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے فرزند ہیں۔
بدقسمتی سے صرف ملتانی سیاست کا مرکز اب صرف پیر خاندانوں کے گدی نشینوں شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی ہی رہ گئے ہیں، ایک اور پیر خاندان مخدوم جاوید ہاشمی بھی تھے جو اب سیاست سے باہر ہیں وہ بھی جمہوریت کے اوتار بننے کے دعوے دار تھے مگر اپنی دختر میونہ ہاشمی کو عورتوں کی مخصوص سیٹپر رکن اسمبلی بنانا نہ بھولے ،ان تین پیر خاندانوں نے ملتان کی سیاست پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جاوید ہاشمی کا خاندان آج کل مقابلے سے باہر ہے مگر شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی کا خاندان میدان میں موجود ہے۔
شاہ محمود قریشی مسلم لیگ ن، پھر پیپلز پارٹی اور پچھلے 10 سالوں سے تحریک انصاف کا حصہ ہیں، یوسف رضا گیلانی پہلے مسلم لیگ ن اب طویل عرصے سے پیپلز پارٹی میں شامل ہیں جبکہ جاوید ہاشمی پہلے مسلم لیگ ن پھر تحریک انصاف اب پھر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
جاوید ہاشمی، ملک عامر ڈوگر سے الیکشن ہارنے کے بعد صحت کے مسائل کی وجہ سے عملی سیاست سے باہر ہیں۔ ویسے بھی شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی کے سامنے انکی دال گلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہ لوگ جب کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو وہاں اپنے شہر کی سیاست پر اپنے خاندان کی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں، کسی دوسرے کو اوپر آنے کا موقع فراہم نہیں دیتے، اسکی واضح مثال تحریک انصاف کے منحرف رکن شیخ سلمان تھے جن کو شاہ محمود قریشی نے وعدہ کر کے ٹکٹ نہیں دیا وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے، جیت کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی مگر بعد میں جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہو گئے، اگر شاہ محمود قریشی جمہوری سوچ کے حامل ہوتے تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔
پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، بلوچستان، خبیر پختونخوا اور دو اکائیوں گلگت بلتستان اور کشمیر میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے۔ سندھ کا بھٹو زرداری خاندان اور دوسرے پنجاب میں شریف برادران، شاہ محمود قریشی، یوسف رضا گیلانی کا خاندان، خبیر پختونخوا میں ولی خان، مولانا فضل الرحمان کا خاندان اور بلوچستان میں مینگل، بگٹی قبیلے اور دیگر چھاے ہوئے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے کہیں بھی بہتری کی امید نہیں، متحدہ قومی موومنٹ سے امید تھی کہ وہ مڈل کلاس گھرانے کی جماعت ہے وہ کچھ بہتر کام کرے گی مگر وہ اپنے لسانی اور شخصی عقیدے میں الجھ گئی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دونوں بیٹوں کو سیاست تو کیا ملک سے ہی باہر رکھا، اپنے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کے بھائی انعام اللہ نیازی کو بھی ٹکٹ نہ دے کر ناراض کر لیا مگر اپنی سیاسی جماعت کے اہم ترین عہدوں پر فائز شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، محمود الرشید جیسوں کو موروثی سیاست کی جکڑ بندی سے نہ نکال سکے۔
جب تک پاکستان میں مورثی سیاست کا زہر ہماری رگوں میں گردش کرتا رہے گا اس ملک میں نظریاتی سیاسی کارکنوں کی جگہ نہیں بنے گی۔ خاندانوں، برادریوں ، ذات پات، لسانیات اور صوبائی تعصب کے نعرے لگتے رہیں گے اور پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہمراہ جمیت علماء اسلام فضل الرحمان ، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی علاقائی سیاسی جماعتوں میں مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو جگہ نہیں ملے گی۔ اگر متحدہ قومی موومنٹ اپنے شخصی عقیدے اور لسانی بنیادوں سے باہر نکل کر سیاست کرے تو شاید کوئی بہتری کے آثار پیدا ہوں حرف آخر جوار احمد کی برابری پارٹی کیا اس خلا کو پر کر سکتی ہے لگتا ہے ہنوز دلّی دور است۔