وہاں پر اکثر بڑے بالوں اور باریک داڑھی کے حامل سانولے رنگ کا ایک نوجوان بیٹھتا تھا جو شعر وشاعری کے ساتھ فرصت کے لمحات میں والی بال بھی کھیلتے تھے۔ یہ شخص ادبی محفلوں میں اپنی لکھی گئی شعر وشاعری بھی سناتا تھا لیکن مزاج دیگر شعرا کی نسبت رومانوی نہیں خشک اور سخت گیر تھا اور ان کی شاعری پر رومانوی اور مذہبی رنگ دونوں بیک وقت غالب تھے۔
طالبان کمانڈروں کی طرح لمبے بال، داڑھی اور جہاد کے حوالے سے سخت گیر گفتگو کرنے کے باوجود یہ شخص پگڑی میں کم نظر آتا تھا اور زیادہ تر چترالی ٹوپی کا استعمال کرتا تھا۔
لال مسجد آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔ ہم جب سکول سے چھٹی کے بعد باہر نکلتے تو طالبان قافلوں کی شکل میں مختلف جگہوں پر موجود ہوتے تھے اور تحریک طالبان پاکستان میں تربیت حاصل کرنے کے لئے نوجوانوں کو راغب کیا جاتا تھا۔
پہلی بار یہ شخص کلاشنکوف کے ساتھ ایک مجمعے میں نمودار ہوا اور انھوں نے تحریک طالبان پاکستان کا پیغام لوگوں کو دیا۔ انھوں نے گرمی کی ایک دوپہر میں تقریباً 500 لوگوں کے ایک مجمعے کو خطاب کے دوران کہا کہ ہم اپنی شرعی عدالتیں قائم کرنے جا رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی برداشت نہیں کریگی۔
اس خطاب میں انھوں نے مزید کہا کہ کسی کو غیر قانونی ٹیکس لینے اور چوری کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس نوجوان نے ضلع مہمند کے لوگوں پر اس وقت دہشت پیدا کی جب چوری اور غیر قانونی ٹیکس لینے کی پاداش کے مبینہ جرم میں انھوں نے ضلع مہمند کے ایک خاندان کے 5 سے زیادہ افراد کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ذبح کیا جس کے بعد خوف اور دہشت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
اس نوجوان کا نام عبدالوالی تھا جو بعد میں عمر خالد خراسانی کے نام سے مشہور ہوا۔ عمر خالد خراسانی نے ایک ہفتے پہلے کابل جانے والے قبائلی ممبران پر مشتمل امن جرگے اور علما کے ایک وفد کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی تھی۔
گذشتہ رات افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں اُن کی گاڑی مبینہ طور پر خود ساختہ بم کا نشانہ بنی جس میں وہ تین دیگر ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ ان کی ہلاکت کی تصدیق ٹی ٹی پی کے ترجمان نے بھی کی مگر انھوں نے کہا کہ تفصیلات بعد میں جاری کی جائے گی۔
عمر خالد خراسانی ضلع مہمند کے تحصیل صافی میں 1977ء کے لگ بھگ پیدا ہوا تھا۔ ان کے والد مقامی سرکاری سکول میں نوکری کرتے تھے اور اب ریٹائرڈ ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور بعد میں کراچی کے ایک مدرسے میں بھی زیر تعلیم رہے۔
عبدالوالی عرف عمر خالد خراسانی کے بچپن کے ایک دوست نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بچپن سے اُن کی طبیعت سخت نہیں تھی اور دیگر نوجوانوں کی طرح ایک عام نوجوان تھا جو والی بال کھیلتا تھا اور رومانوی شاعری کرتا تھا۔
وہ کہتے ہیں عبدالوالی دوستوں کا دوست تھا اور ہر وقت وہ دوستوں پر جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔ وہ کہتے ہیں ان کی طبیعت میں بچپن سے کبھی سختی نہیں تھی مگر کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے کئے گئے مظالم اور اُن ویڈیو سی ڈی ایز دیکھ کر ہمارے علاقے کے اکثر نوجوانوں کشمیر جنگ کی طرف راغب ہوئے اور اس میں میرا دوست عبدالوالی بھی شامل تھا اور یہ سفر پھر کبھی نہیں رکا اور آج ان کی موت پر تمام ہوا۔
انھوں نے مزید کہا کہ بارڈر پار جانے کے بعد انھوں نے ہم سے رابطہ منقطع کیا لیکن وہ ہمیں عید اور دیگر مواقع پر پیغامات بھیجتے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ دوستوں کے ساتھ رابطے میں ہوگا تو دوستوں کے لئے مشکلات بڑھیں گی اس لئے انھوں نے ہم سے رابطہ منقطع کیا۔
عبدالوالی عرف عمر خالد خراسانی شادی شدہ تھے اور غیر مصدقہ اطلاعات کی مطابق انھوں نے سوگواروں میں دو بیویاں اور پانچ بچے چھوڑے ہیں۔ عمر خالد خراسانی نے عسکریت پسندی کا سفر حرکت المجاہدین سے شروع کیا اور ضلع مہمند میں حرکت المجاہدین کے مقامی دفتر کا انچارج بھی لگ گئے مگر انھوں نے کشمیر جنگ میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں لیا تھا۔ وہ تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ بھی وابستہ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب لال مسجد آپریشن شروع ہوا تو عمر خالد خراسانی نے ضلع مہمند کے تحصیل صافی میں واقع مشہور سامراج مخالف فریڈم فائٹر ترنگزو بابا جی کے مزار کے گنبد کو لال رنگ سے رنگ دیا اور اس مزار کو لال مسجد کا نام دیا۔
اس کے بعد عمر خالد خراسانی اور مقامی مزار ملکی اور بین القوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا اور درجنوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں نے اس مزار کا رُخ کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن میں عمر خالد خراسانی کی قیادت میں مسلح جنگجو نے پاکستانی افواج کے لئے شروع میں سخت مشکلات پیدا کئیں اور پاکستان آرمی کو سخت مزاحمت کا سامنا رہا۔
عمر خالد خراسانی ٹی ٹی پی مہمند شاخ کے کمانڈر اور سربراہ تھے اور ان کا شمار تنظیم کے سخت گیر رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ 2013ء میں جب ٹی ٹی پی کے اس وقت کے سربراہ حکیم اللہ محسود ایک ڈرون حملے میں مارے گئے تو فضل اللہ ٹی ٹی پی کے سربراہ بن گئے۔
عمر خالد خراسانی اور فضل اللہ کے درمیان اختلافات شروع ہوئے تو عمر خالد خراسانی نے سال 2014ء میں اپنی تنظیم جماعت الحرار قائم کی اور اس تنظیم کو متحرک اور کامیاب بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
اس تنظیم نے ضلع مہمند میں نماز جمعہ میں ایک خودکش حملے اور لاہور میں مسیحی کمیونٹی کی ایک تہوار کو نشانہ بنایا۔ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کی خبریں کئی بار میڈیا میں منظر عام پر آئیں مگر وہ کئی مہینوں تک میڈیا سے غائب رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک حملے میں زخمی ہو گئے تھے اور ان کا علاج چل رہا تھا۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے سلسلے میں کابل جانے والے ایک جرگہ ممبر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ عمر خالد خراسانی کافی متحرک اور چوکس تھے مگر وہ اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے کافی پریشان تھے۔
وہ کہتے ہیں عمر خالد خراسانی کا جنگی جذبہ تاحال جوان تھا مگر وہ گاؤں کے بچے سے لے کر سب کا پوچھتے رہتے تھے اور کہتے کہ بس آخری خواہش یہی ہے کہ اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہو جاؤں مگر اُن کا یہ ارمان پورا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ عمر خالد خراسانی نے اُن کو ایک ماہ پہلے بتایا تھا کہ ہمارے اندر لڑنے کا جذبہ کم نہیں ہوا لیکن اپنا علاقہ، اپنے کھیت اور اپنے لوگ بہت یاد آتے ہیں لیکن وہ پاکستان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہم صلح کرکے واپس بھی جائیں تو اگلے دن کسی دھماکے میں مارے جائینگے۔
جرگہ ممبر نے کہا کہ عمر خالد خراسانی پر حملہ جس نے بھی کیا لیکن امن مذاکرات کا مسقبل اب خطرے میں ہے اور اس سازش سے امن مزاکرات کا سلسلہ روک جائے گا۔
ٹی ٹی پی سربراہ فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد جب تنظیم کی کمان مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے دیگر تنظیموں کے ساتھ ساتھ جماعت الحرار کو بھی واپس ٹی ٹی پی کی چھتری تلے جمع کیا جس کے بعد ٹی ٹی پی ایک مضبوط تنظیم کے طور پر ابھری اور پاکستان میں حملوں میں اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد پاکستانی حکومت نے سے امن مذاکرات شروع کئے۔
عمر خالد خراسانی کی تنظیم جماعت الحرار پر سال 2017ء میں اقوام متحدہ نے پابندی عائد کی جبکہ امریکی حکومت نے عمر خالد خراسانی کی سر کی قیمت کا انعام 3 ملین ڈالر مقرر کی تھی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی سال 2014ء میں ان کے سر کی قیمت کا انعام ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے مقرر کیا تھا۔