عمران خان کی قسمت کا فیصلہ اب پاکستان کی معیشت کرے گی

عمران خان کی سیاست سے غیر موجودگی میں اگلی آنے والی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے میں خود کو زیادہ پراعتماد محسوس کرے گی۔

12:58 AM, 8 Aug, 2023

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
Read more!

جو لوگ ہفتہ 5 اگست کو پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری پر پاکستان کی سڑکوں پر ایک خوفناک ابتری اور افرا تفری دیکھنے کی امید رکھتے تھے، انہیں مایوسی ہوئی ہوگی۔ ملک میں مکمل خاموشی رہی اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن رہے۔

یہ 9 مئی اور اس سے قبل مارچ کی صورتحال سے بالکل مختلف تھا جب ان کے حامیوں نے ریاست کو یوں آڑے ہاتھوں لیا کہ ملک میں تقریباً خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہو گئی۔ جہاں 9 مئی کو فوجی عمارتوں پر حملے کیے گئے، مارچ میں عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش پر PTI کارکنان نے پنجاب پولیس پر پٹرول بم پھینکے تھے۔ اس کے بعد فوج اور حکومت نے عمران خان کے خلاف ایک بیانیہ بنایا جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی ہے جو کہ قانوناً جرم ہے۔

انتخابات میں تاخیر

اس کے بعد طاقت کا بے رحم استعمال کیا گیا اور پکڑ دھکڑ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ لوگ سڑکوں پر آنے کی جرات نہ کر سکیں کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کچھ کیا تو دوسری طرف سے بھی بھرپور جواب آئے گا۔ ان پر ریاست کے خلاف دہشتگردی کا الزام لگایا جائے گا۔ توشہ خانہ کیس میں سول کورٹ کے حالیہ فیصلے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ عمران خان کے اس بیانیے کو کمزور کیا جائے کہ وہ کرپشن کے خلاف لڑنے والے ایک سیاستدان ہیں۔ کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ عمران خان کرپشن میں ملوث تھے کیونکہ انہوں نے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن سے چھپائے اور ریاستی تحفوں کو بیچنے کے متعلق جھوٹ بولا۔

تاہم، کورٹ کے فیصلے یا سڑکوں پر نظر آنے والی خاموشی یہ کہیں ظاہر نہیں کرتے کہ عمران خان کے متوالوں یا ایک عام آدمی کے خیالات میں کوئی تبدیلی آ گئی ہے۔ گرفتاری سے الٹا شاید ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہی ہوگا تاہم یہ ایک ایسا چیک ہے جسے کیش تبھی کروایا جا سکتا ہے جب ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں جس کا فی الحال دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔ عمران خان نے اپنا احتجاج جلد انتخابات کے مطالبے سے شروع کیا تھا۔ لیکن یہ مشکل نظر آتا ہے کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل، جو کہ وفاقی اکائیوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کا فورم ہے، 2023 میں ہوئی مردم شماری کی منظوری دے چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات مزید ملتوی کرنا ہوں گے کیونکہ اسے نئی مردم شماری کے تحت دوبارہ حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی۔ لیکن نئی حلقہ بندیوں میں مزید مسائل ہیں اور اس سے نیا تنازع کھڑا ہوگا۔ تاریخ دان یعقوب بنگش کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے تحت ایک بھی نشست کے اضافے کے لئے قومی اسمبلی کی منظوری درکار ہوگی جو کہ اس وقت ناممکن ہے۔ دو صوبوں میں نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ نیا قانون نہیں بن سکتا۔ ظاہر ہے، کوئی بھی تنازع عمران خان کو اپنی شہرت کو دوام بخشنے میں مدد ہی دے گا۔

یہ تو واضح نہیں کہ انتخابات کب ہوں گے لیکن کچھ پرامید تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ اگلے برس مارچ میں ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران عمران خان اور ان کی جماعت کو مزید پیچھے دھکیلا جائے گا۔ یہ البتہ طے ہے کہ جب تک اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے عمران خان کے خلاف دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں کوئی ریلیف فراہم نہ کر دیا جائے، وہ انتخابات سے نااہل ہی رہیں گے۔ عمران خان پر مہربان چیف جسٹس عمر عطا بندیال جو اب PTI سربراہ کا بھرپور دفاع کر کر کے شاید تھک چکے ہیں ستمبر میں ریٹائر ہونے جا رہے ہیں اور بہت کچھ اب ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس پر منحصر ہوگا۔ اعلیٰ عدلیہ سرگرم ہو بھی جائے تو بھی ریلیف دینے کا عمل کٹھن ہوگا اور کافی وقت لے گا۔ یہ حقائق عمران خان کے اگلی پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کی راہ میں حائل ہیں۔

پاکستانی فوج اور عمران خان

جن سیاسی مبصرین سے میری بات ہوئی ہے ان کا ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی ڈوریں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہلا رہے ہیں اور وہ اس وقت تک انتخابات کے لئے تیار نہیں ہوں گے جب تک کہ عمران خان کی امیج بڑی حد تک گہنا چکی ہو۔ گذشتہ بہت سے سالوں میں قبل از انتخابات بیانیہ بنانے میں تو فوج نے مہارت حاصل کر لی ہے لیکن انتخابات کے دن دھاندلی کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اب ایک ہی امید باقی بچی ہے کہ میڈیا میں موجود اسٹیبلشمنٹ کے دوست عمران خان کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائیں۔ ایک ایسی مہم جس پر عوام کو بھی یقین آ جائے۔ دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں اگلے چھ ماہ میں کوئی معجزاتی معاشی کایا پلٹ رونما ہو جائے جس سے عوامی تاثر میں تبدیلی آ جائے۔

عمران خان کی مقبولیت یا بدنامی ایک سنجیدہ مسئلہ بنے گی کیونکہ فوج اب ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاشی منیجمنٹ میں ملوث ہو چکی ہے۔ پاکستانی فوج کی ہئیت میں تیزی سے آنے والی تبدیلی جس کے تحت یہ بیرونی سے زیادہ اندرونی حالات کی طرف متوجہ ہے بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔ پاکستان کی معاشی کارکردگی اور عمران خان کی مقبولیت اب تناسب معکوس کی صورت ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ ریاست کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی تو عمران خان مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرے گا۔ سڑکوں پر کوئی بڑا احتجاج نہ بھی نظر آئے، عوام میں GHQ کی حمایت یافتہ حکومت کے لئے خفگی یا اس سے عدم اطمینان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا چیلنجز دونوں جانب ہی موجود ہیں۔

عمران خان کی واپسی دو چیزوں پر منحصر ہے۔

ایک تو یہ کہ آرمی کی مستقبل کی قیادت ان سے دوبارہ ربط بڑھائے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان اپنی سیاسی جماعت کی تنظیمی استعداد کار کو بڑھائے جو کہ ابھی ایک منظم انداز میں الیکشن کے دن کی سرگرمیوں کی تاب نہیں لا سکتی۔ اگر وہ اگلے پانچ سال تک غیر متعلقہ ہی رہے تو طاقتور امیدوار ان سے کنی کترا جائیں گے۔ اس کے بعد پارٹی کی نظریارتی اساس کو نئے سرے سے کھڑا کرنے کے لئے ایک ایسی ٹیم درکار ہوگی جو ریاستی جبر کا سامنا کر سکے۔ یاد رہے کہ وہ اب 70 برس کے ہو چکے ہیں اور جیل میں کچھ وقت گزارنے کے بعد آنے والے پانچ سالوں میں یہ سب کرنے کے لئے ان میں کتنی توانائی بچے گی یہ دیکھنا باقی ہے۔

دوسری طرف، عمران خان کا سیاسی مستقبل آنے والے سالوں میں پاکستان کی معاشی کارکردگی سے بھی جڑا ہے۔ اگر معیشت بہتر نہیں ہوتی، ریاستی اثاثوں کو بیچنے یا فوج کے زراعت میں ملوث ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، یا اس سب سے عوامی تنگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو عوام کو عمران خان یاد آئے گا۔ لیکن اس وقت تک عمران خان کے لئے مشکل وقت ہے جو انہیں پارٹی کی تنظیم سازی اور اپنے سیاسی فیصلوں پر غور کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔ اس میں یہ فیصلے بھی شامل ہیں کہ فوج کو کتنی سپیس دی جانی چاہیے جو کہ ان کے دورِ اقتدار میں بہت زیادہ طاقتور ہوئی، اور غیر ملکی قوتوں پر اپنی حکومت گرانے کے الزامات لگا کر کتنی ایک سیاسی تحریک چلائی جا سکتی ہے۔ انہیں اپنی پارٹی کی تنظیم سازی پر بھی سوچنا ہوگا۔

عمران خان کا پاکستانی سیاسی منظرنامے سے غائب ہونا ملک کو ایک ایسی صورتحال میں لے آیا ہے کہ جس میں اگر چاہیں تو ملک کے حقیقی سٹیک ہولڈر PTI کی فکر سے آزاد ہو کر اپنی جیو پالیٹکس پر از سرِ نو غور کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست سے غیر موجودگی میں اگلی آنے والی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے میں خود کو زیادہ پراعتماد محسوس کرے گی۔ اس کا امکان اب بڑھ بھی گیا ہے کیونکہ ملک کی معاشی منصوبہ سازی میں نئے سٹیک ہولڈر آ چکے ہیں، خصوصاً سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک جو کہ پاکستان اور بھارت دونوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔


ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا یہ مضمون theprint.in میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

مزیدخبریں