حسن عمر
جو واقعہ ہمیں حادثہ معلوم ہوتا ہے، بعد ازاں تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ اس کے پیچھے مفاد اور سازش کے دو رنگے دھاگے سے بُنی گئی چادر کا دبیز پردہ ہوتا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کوٹہ سسٹم کے تحت 1971 کی جنگ میں لڑنے والے سابق سکیورٹی اہلکاروں کے بچوں کے لیے 30 فیصد سرکاری ملازمتیں مختص کی گئی تھیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ سے تھا، جس جماعت نے بنگلہ تحریک کی قیادت کی تھی۔
بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طالب علموں کے ساتھ ساتھ دیگر گروپس بھی پیش پیش تھے۔ مختلف عوامی حلقے، حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنان بھی ان مظاہروں کے پُشتی بان تھے۔ اپنے حق کے لیے جان ہتھیلی پر لیے یہ مظاہرین ایک ماہ گلی کوچوں اور چوراہوں میں سنگ ہائے دشنام سہنے کے بعد بالآخر کامیاب ہو گئے۔ کل جو سڑکیں جنگ و جدل کا منظر پیش کر رہی تھیں، آج ان پر جشن بپا ہے۔ کو بہ کو نغموں اور ترانوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ ان کے پاس کوئی رجل رشید ایسا نہ تھا جو اس عوامی سمندر کے سامنے بصیرت کا بند باندھتا۔ حسینہ تاریخ کے دھارے میں خس و خاشاک کی مانند بہہ گئیں۔ پل بھر میں تاج و تخت بھی چھن گیا اور وہ ملک جہاں وہ 15 برس سیاہ و سفید کی مالک رہیں، اس ملک میں انہیں پناہ بھی نہ مل سکی۔ ہیلی کاپٹر رہائش گاہ سے اڑا تو سیدھا اگرتلا جا اترا۔
مزید 26 فیصد ملازمتیں خواتین، معذور افراد اور اقلیتوں کے لیے مختص کی گئیں، جس سے تقریباً تین ہزار آسامیاں خالی ہیں جن کے لیے 400,000 گریجویٹ سول سروسز کے امتحان میں حصہ لیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے 170 ملین افراد میں سے پانچواں حصہ بے روزگار ہے۔
حسینہ کی جانب سے مظاہرین کو 'رضاکار' کہنے کے بعد حکومت کے خلاف ریلیوں میں شدت آ گئی۔ رضاکار سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
حالات بد سے بدتر ہونے لگے اور ہلاکتوں کی تعداد 300 کے قریب پہنچی، درجنوں افراد زخمی ہوئے مگر یہ احتجاجی تحریک ایک نعرے کے ساتھ آگے بڑھتی رہی؛ 'تم کون ہم کون، رضا کار رضا کار'۔ بنگلادیش میں حسینہ واجد کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والی طلبہ تحریک میں یہ نعرہ مزاحمت کی علامت بنا رہا۔
حسینہ واجد 2009 سے مسلسل اقتدار میں تھیں، وہ پانچ بار ملک کی وزیراعظم رہیں۔ رواں سال جنوری میں چوتھی بار مسلسل اقتدار میں آئیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات کا اپوزیشن جماعتوں نے بائيکاٹ کیا تھا۔ اس سے قبل حسینہ واجد 3 بار اپوزیشن لیڈر بھی رہیں۔ حسینہ واجد کو دنیا ميں سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خاتون سربراہ کا اعزاز حاصل رہا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ کی قیادت میں بنگلہ دیش کے زیادہ تر معاشی اشاریے مثبت رہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، لیکن جیسے جیسے معیشت بہتری کی طرف گامزن ہوئی تو شاید حکومت نے فرض کر لیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کے شہری حقوق اور آزادیوں کو پامال کر سکتی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں پر پابندی لگا سکتی ہے اور اپنی مرضی کے مطابق حکومت کر سکتی ہے، جس میں ملکی قوانین کا کوئی احترام یا خیال نہیں رکھا جائے گا۔
حسینہ واجد کا طویل عہد اقتدار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبرو تشدد، بدعنوانی، مخالفین کو کچلنے، جمہوری روایات کو پامال کرنے اور عدم مساوات سے عبارت رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہیں بڑے پیمانے پر عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ گذشتہ دہائی میں پروان چڑھنے والی نئی نسل کی سوچ بہت بدل چکی ہے، جس کا ادراک ڈھاکہ میں بیٹھے حاکموں کو نہ ہو سکا اور سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ؛
'حسینہ مانے گی نہیں اور وقت نے ثابت کیا حسینہ نہیں مانی'۔
حسینہ واجد کا فرار ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل اشرف غنی افغانستان سے فرار ہوئے تھے اور پھر سری لنکا کے وزیر اعظم نے بپھرے ہوئے عوام کے غضب سے بچنے کے لیے راہ فرار میں ہی عافیت جانی تھی۔
پاکستان کی معاشی ناؤ منجدھار میں ہے۔ 40 فیصد سے زائد نفوس خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عوام مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ انقلاب پاکستان کے اردگرد بار بار دستک دے رہا ہے مگر لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمران حالات کی سنگینی کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھیے، جنہوں نے تاریخ رقم کی، بعد کی نسلوں نے انہیں مسترد کر دیا۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں جو ہیرو تھے صدی کے آخر تک ان کے مجسمے گرائے گئے۔ متحدہ روس کے ٹوٹنے کے بعد لینن اور اسٹالن کے مجسمے زمین بوس ہو گئے۔ عراق میں صدام حسین، لیبیا میں کرنل قذافی کے قد آور مجسمے عوام نے پاش پاش کر دیے۔ عوام جب بیزاری کے عالم میں سربکف ہو کر باہر نکلتے ہیں تو سب بھول جاتے ہیں کہ کس نے کیا کیا یا کیا دیا تھا۔ وہ موجودہ نظام کے خلاف لڑتے ہیں اور سارے اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں ان کے لیے سبق موجود ہے جو دیدہ نگاہ رکھتے ہیں۔
فروری 2024 کے انتخابات میں ایک ایسی سیاسی جماعت جس سے انتخابی نشان چھین لیا گیا، انتخابی مہم چلانے میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، امیدواروں کو ہراساں کیا گیا، لیڈرشپ کو پابند سلاسل کیا گیا، جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی گئی، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ پیہم چل رہا ہے۔ لیکن نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلائی اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ نوجوانوں نے بازی پلٹ دی۔ پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی پاکستان تحریک انصاف پر چند دن قبل حکومت نے پابندی لگانے کا فیصلہ کیا اور یہی غلطی حسینہ واجد نے بھی کی تھی۔
جنہیں حمود الرحمٰن کمیشن کی یاد ستا رہی ہے وہ یہ تو بتائیں انہوں نے خود کیا سبق سیکھا ہے کہ آج بھی بات 'غیر سیاسی' لوگوں سے ہی کرنا چاہتے ہیں۔
حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں اختلاف ہی اختلاف ہے۔ معیشت کی بدھیا بیٹھ چکی ہے مگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات سلجھانے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے، اس کے پیچھے عوام کی بہت بڑی تعداد کھڑی ہے اور عمران خان سب سے مقبول لیڈر ہے۔
بنگلہ دیش میں جو ہوا اسے لیڈ نوجوانوں نے کیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ نفرت کی بنیاد پر حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ ہمیں پاکستان کو آمریت سے بچانا ہے اور اپنے حکمرانوں سے بس یہی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال سے کچھ سبق سیکھ لیں اور عوامی رائے کا احترام کریں۔