مجھے معاشرے کی عزت پر پرچہ کٹوانا ہے

06:06 AM, 8 Dec, 2019

امبر حسینی
آج مجھے پرچہ کٹوانا ہے دھوکہ دہی کا، حق تلفی کا، قتل کا، چوری کا اور پتہ نہیں کس کس کا۔ کوئی ایک ظلم نہیں توڑا ہے اس نے مجھ پر۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ میری آزادی سے لے کر میری خوشی تک، میری تعلیم سے لے کر معاشی خود انحصاری تک، میری خوشی سے لے کر میری زندگی تک سب کھا گئی یہ عزت۔

مگر اتنی چالاک ہے یہ جب بھی حق مارا بڑے طریقے سے مارا۔ جہاں دیکھا میں سانس لے سکتی ہوں اس معاشرے کی ناانصافی کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہوں وہاں یہ کوئی نہ کوئی روپ لے کر میرے راستے میں آ گئی۔ اپنا اس کا کوئی کردار نہیں اور میرے کردار کے فیصلے کیے اس نے۔ میرا خون پی کر مجھے ہی مجرم کہا اس نے۔ یہ مت سمجھیں ہوا میں تیر چلا رہی ہوں یا دکھ میں چلا رہی ہوں۔ ساری عمر اماں سے طعنہ سہا ہے تو جرح پر اتر آئی ہے۔ وکیل بن جا کر، میرا سر نا کھا۔

آج اگر معاشرہ میرے لیے جج بنا ہے تو پھر میں بھی وکیل ہی بنوں گی۔ اس عزت بی بی اور اس کی ساتھی غیرت کے منہ سے ہر نقاب اتاروں گی۔ آج اس عزت کو بے عزت نہ کیا تو میرا دکھ بھی جھوٹا میرا درد بھی بے فائدہ۔

یہ کہانی آج کی نہیں بڑی پرانی ہے اور اس کا نشانہ ایک نہیں جانے کتنی ہیں۔ جو چیخ چیخ گونگی ہو گئیں۔ رو، رو مر گئیں۔ اور کتنی ہیں جو اس عزت کو کاندھے پر اٹھاتے اٹھاتے زندہ لاش بن گئیں مگر اسے ترس نہ آیا۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید میں سہہ لیتی پر یہ خون آشام بلا تو جان لے کر بھی نہیں ٹلتی۔ میرے خون پر پلنے کے بعد جب میرے لیے کھڑے ہونے کا وقت آتا ہے تو معاشرے کے رسم و رواج کی گود میں جا چھپتی ہے۔

یہ دو موہی ناگن ہے کبھی ایک طرف سے ڈستی ہے تو کبھی دوسری طرف سے اپنا زہر میری رگوں میں اتارتی ہے، آج اتنا غصہ ہے اس پر دل چاہ رہا ہے منہ نوچ لوں اس کا، اس کو قتل کر کے اسی قبر کے اوپر پھینک دوں جس میں اس کا شکار دفن ہے۔ چیخوں چلاؤں اور کچھ نہیں تو جھولی اٹھا اٹھا کر اسے بددعا دوں کہ مر جا تو کلمو ہی! تیرا کچھ نہ رہے۔

ایک گلاس پانی پلا دے بھائی! سانس میں سانس آئے تو تسلی سے بتاؤں FIR میں کیا کیا لکھنا ہے، غصے میں رپورٹ ادھوری رہ گئی تو اس چالاک نے پھر کوئی نیا چھل کر کے بچ نکلنا ہے۔ اب لکھ، آرام سے اپنے سب سے لمبے والے رجسٹر پر لکھ۔

پہلا دھوکا اس نے میرے پیدا ہوتے ہی یہ کہہ کر دیا کہ میں عزت ہوں، اس گھر کی معاشرے کی اور میرے سے میرے انسان ہونے کا حق چھین کر مجھ پر ان کہے بوجھ ڈال دیے۔ مجھے عزت کہنے سے میری حفاظت کی جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی تھی وہ بھی پوری نہ کی۔ یہ تو معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی نا۔

کوئی اپنی عزت کو خود گالی دیتا ہے؟ ابا آپ نے دی، جھوٹ بولا تھا کیا؟ کہ میں آپ کی عزت ہوں، خود کو گالی پڑے تو خون بہے، مجھے پڑے تو گھر بچانے کو برداشت کر لو۔ کیوں ابا کیا میری اور آپ کی عزت برابر نہیں۔ کیا مرد اور عورت کی طرح ان کی عزت بھی مختلف ہے۔ مرد عزت اور عورت عزت۔ اور عورت کی عزت کو بھی اپنے جائز حق کے لیے عورت کی طرح ابھی لمبی لڑائی لڑنا ہو گی۔

ابا! اگر گھر بچانے کو گالی سننے سے عزت کم نہیں ہوتی تو آج میں بھی گالی دوں۔ اس کا بھی گھر ہے وہ بھی برداشت کرے نا گھر بچانے کو۔

نہیں ابا آپ اور آپ کا معاشرہ دھوکا کرتا ہے میرے ساتھ۔ میرے اس رشتے سے نکلنے پر آپ کی عزت کم نہیں ہوتی آپ کی معیشت اور معاشرے میں مرد کی حکمرانی متاثر ہوتی ہے اور نام استعمال ہوتا ہے عزت کا۔

خود سوچیں ابا! آپ کی بیٹی کو کوئی گالی دے، مارے، ذلیل کرے، عزت کو کچھ نہ ہو۔ وہ ایسا کرنے والے شخص کو خود سے دور کرے اپنی زندگی سے نکالے تو عزت مر جائے۔ یہ کیسی عزت ہے؟

یہ تو بچپن سے تھا جب کسی نے آواز کسی تو کالج سے اٹھا لیا. آواز کسنے والے کا منہ توڑنے کو تو ہمت چاہیے تھی، نہ ہوئی تو مجھے عزت کے نام پر گھر بٹھا لیا۔ میں اپنی پسند کے کسی شخص کے ساتھ زندگی گزاروں تو عزت پر حرف میں خود سے 20 سال بڑے اجڈ جاہل کی مار کھاتے ہوئے مر جاؤں تو عزت قائم۔

چلو چھوڑو اسے! یہ بتاؤ عزت اور جان میں سے زیادہ پیارا کیا۔ خودی کہتے ہو نا عزت۔ تو میرے عزت والے ابا ونی کے نام پر اپنی عزت دشمن کو کیوں پکڑا دیتے ہو۔ مانتے کیوں نہیں کہ بزدل ہوں اپنے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ آپ کے جرم کی سزا آپ کی بیٹی بھگتتی ہے۔ آپ کی جان کے لیے آپ کی عزت دشمن کے گھر ذلیل ہوتی ہے۔ تب آپ کے اندر کی غیرت کیوں سو جاتی ہے۔

حقیقت یہی ہے میں نہ تو عزت ہوں نہ انمول ہوں۔ یہ سب بہانے ہیں، جو آپ نے تراشے ہیں اپنی ذمہ داری سے منہ موڑنے کو۔ میرا حق کھانے کو۔

میں اس معاشرے کی عزت ہوں تو مجھے حفاظت سے رکھنے کی بجائے مجھ پر آوازیں کیوں کستا ہے۔ مجھے رستوں پر ہراساں کیوں کرتا ہے۔ میرے بڑھنے پر قدغن کیوں لگاتا ہے۔ مجھے قید اور محتاج کیوں رکھنا چاہتا ہے۔ کبھی عزتوں کو بھی قید کرتے ہیں۔ کبھی عزتوں کو بھی گالی دیتے ہیں۔ کبھی جان بچانے کو ان کو قربان کرتے ہیں کیا۔

عزتوں کی حفاظت کرتے ہیں تو روز نئی زینب بے آبرو کیوں ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ ناکام ہو، اس کی حفاظت کرنے میں اور اپنے نکمے پن کو چھپاتے ہو اس کے کپڑوں کی اونچ نیچ میں۔ یہ معاشرہ اصل میں بزدل، ناکام اور کاہر ہے اور اس سب کو چھپانے کو نقاب پہناتا ہے عزت کا۔

اس کی ذمہ داری ہے مجھے محفوظ ماحول دے، یہ عزت کی حفاظت کے نام پر مجھے گھر میں قید کرتا ہے۔ اگر کسی قابل ہو تو درندوں کو لگام ڈالے مجھے نہ چھپائے۔ مجھ سے گالی گلوچ کرنے والے کو گریبان سے پکڑے میرا سر نہ جھکائے۔ اپنے گناہوں کا بوجھ خود اٹھائے، مجھے ونی کے نام پر قبر میں نہ اتارے۔ میری زندگی کے فیصلوں میں میرے ساتھ کھڑا ہو میرے خلاف نہیں۔

اس کے سارے اصول مجھے گھر میں قید کرنے سے شروع ہو کر مجھے گھر بسانے کو مار سہنے تک نہ ہوں۔ میرا راستہ روکنے والے کے ہاتھ توڑنے سے لے کر میری بےعزتی کرنے والے کو میری زندگی سے دور پھینکنے کے لیے ہوں۔

مگر اصل میں یہ معاشرہ میری عزت کرتا ہی نہیں ہے یہ صرف مجھے استمعال کرتا ہے کہیں رشتوں کے نام پر تو کہیں رسموں کے نام پر۔ میں کمزور ہوں تو اپنی شرم و غیرت کا سارا بوجھ میرے کندھے پر کیوں ڈالتا ہے یہ معاشرہ۔ یہ پاجی ہے جس نے عزت کے دوہرے معیار بنائے ہی اس لیے ہیں کہ میرا راستہ روک سکے۔ مضبوط عورت اسے تسلی دینے کی بجائے ڈراتی کیوں ہے۔ کبھی سوچو تو ساری چالاکی سمجھ آتی ہے۔ مرد کی برتری برقرار رکھنے کو گھڑی شرم کے سب اصولوں کی نفی کرتی ہوں۔

آج میں اس معاشرے کی عورت خور عزت کو صاف کہتی ہوں، اپنے اصول اور دائرے دوبارہ سے بنا اور اب کی بار یہ اصول سچائی پر بنانا، اپنے گھٹیا رسم و رواج کو زندہ رکھنے اور ایک جنس کی برتری کو نا ہوں۔ میرے حق کو دبانے اور اپنی ذمہ داری سے نظر چرانے کو نا ہوں۔

ورنہ جہاں مجھے اور اتنی لڑائیاں لڑنی ہیں میں تیرے خلاف بھی لڑ لوں گی۔ اس حد تک سہا ہے کہ اب تیرے میٹھے لفظوں کے جال میں نہیں آؤں گی۔ جان گئی ہوں میں میری عزت صرف میری ہے تیرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تو تیری بزدلی کا قرض چکانے کی بجائے، مجھے نہیں ضرورت تیری، جا یہاں سے، میں اپنی عزت آپ کر لوں گی۔
مزیدخبریں