سارے قومی لیڈر ایک دوسرے کو کشمیر سے غداری کرنے کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں، ہر طرف کشمیر نظر آتا ہے لیکن صرف ایک دوسرے پر تنقید کی حد تک، صرف پوائنٹ سکورنگ کی حد تک جبکہ حقیقت میں کسی ایک لیڈر نے بھی پالیسی سطح کی بات نہں کی۔ حکومت تو خیر ایک طرف جو آج تک وزیراعظم عمران خان کشمیر کے لیے کسی ایک ملک بھی نہ جا سکے مگر اپوزیشن نے بھی کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلائی نہ کوئی متفقہ لائحہ عمل جاری کیا۔
مرکزی حکومت تو ذاتی جھگڑوں اور پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے لیکن آزادکشمیر حکومت جو خود کو بیس کیمپ کا درجہ دینے میں بالکل بھی نہیں ہچکچاتی وہاں کی پالیسی بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ بس اتنا سمجھ آتا ہے کہ ایک کرسی ہے جس کے گرد سب کچھ گھوم رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کشمیر کاز کا چیمپیئن سمجھتی ہیں خود کو مگر عملی طور پر کوئی متفقہ مؤقف ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ ہمارے وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر جو کشمیر کا نام آتے ہی شدت جذبات سے آنسو بہانا شروع کر دیتے ہیں، گو کہ ان کے دل میں درد ہو گا اور وہ واقعی کشمیریوں کا درد رکھتے ہیں لیکن کیا آنسو بہا کر بیس کیمپ کے وزیراعظم کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟ راجا فاروق حیدر وزیراعظم آزادکشمیر ہیں آپ وفاقی حکومت کی منتیں ترلے کرنے کے علاوہ سیدھا صاف اور دو ٹوک مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ ساری سیاسی جماعتوں کو ٹیبل پر بٹھا کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل دے سکتے ہیں۔ آپ اپنی نانی کے خواب کی تعبیر بھی کر سکتے ہیں بس تھوڑی سے حکمت اور دانش کی ضرورت ہے۔ آپ دنیا بھر کے میڈیا کو خطوط لکھیں، جو بین الاقوامی میڈیا پاکستان کے اندر موجود ہے آپ ان سے بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں، آپ اس سارے میڈیا اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کر سکتے ہیں، آپ اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر دنیا بھر کی این جی اوز کے ساتھ لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کر سکتے ہیں، آپ کسی لائحہ عمل کے ساتھ میدان میں تو آئیں، امریکہ اور یورپ کے دوروں سے نکل کر عملی میدان میں آئیں تو راستے نکلیں گے ایسے آنسو بہانا نہ بہادروں کی نشانی ہے اور نہ حکمت، بلکہ یہ کمزوری ہے۔ کمزوری کا عیاں کرنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں پچھلے 4 ماہ کے دوران 38 کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا ہے اور سینکڑوں لوگ زخمی اور بھارتی فورسز کے تشدد کا شکار ہوئے ہیں، یہ وہ خبریں ہیں جو میڈیا رپورٹ کر رہا ہے حقیقت اس سے زیادہ خوفناک بھی ہو سکتی ہے۔ الزامات اور رونے دھونے کی بجائے ایک جاندار اور موثر پالیسی کی ضرورت ہے اور اگر بیس کیمپ سے ہی کوئی واضح اور دو ٹوک موقف نہیں آتا تو پھر وہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ پھر ایک دن آئے گا کہ کشمیویوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جائے گا اور ہر سال منایا جائے گا۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے گی اور پھر مگرمچھ کے آنسو بھی کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ لیڈرز جذبات سے زیادہ حکمت سے کام لیتے ہیں، مایوسیوں میں اجالوں اور امیدوں کی راہ دکھاتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں ایسا ہرگز نہیں ہے۔
بیس کیمپ کے وزیراعظم جب بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو ان کے آتے ہی ہمارے انتہائی تجربہ کار صدر ریاست جو بہترین سفارتکار ہیں اور منصب صدارت پر بٹھانے سے پہلے ان کا میرٹ محض یہی تھا کہ وہ سفارتکار ہیں، اب بھارتی حالیہ اقدام جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 3 سالوں میں ان کی سفارتکاری کتنی کامیاب رہی۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور صدر ہوتا تو خدانخواستہ آزادکشمیر بھی ہاتھ سے نکل سکتا تھا۔ یہ ہمارے صدر محترم ہی ہیں جن کی بہترین سفارتکاری سے ابھی تک آزادکشمیر ہمارے ہاتھ میں ہے۔
تو بات ہو رہی تھی بیرون ملک دوروں کی ہمارے وزیراعظم واپس آتے ہیں تو محترم صدر ریاست مغرب کا رخ کرتے ہیں۔ وہ آتے ہیں تو وزرا بھی کشمیر کے نام پر لندن کی سڑکوں پر سیر کرتے نظر آتے ہیں، مسئلہ کشمیر سے زیادہ پاکستان کی سیاست میں مگن رہتے ہیں۔ کشمیر سے زیادہ مرکز میں اپنی سیاسی وابستگی کو ثابت کرنا ہمارے سیاستدانوں کی اولین ترجیح ہوتا ہے اور اسلام آباد کا کشمیر ہاؤس پکا ٹھکانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
آزادکشمیر سے ہٹ کر دیکھیں تو وہاں ایک ریاستی جماعت بھی پائی جاتی ہے جو 5 اگست سے پہلے ہی سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کر چکی تھی مگر 5 اگست کے بعد ایسی کوئی کال دی گئی نہ ہی اس معاملے پر کوئی پیشرفت نظر آئی۔ ہر طرف گومگوں کی کیفیت ہے کسی کو شاید کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کشمیر بچانا ہے یا کرسی بچانی ہے، ان حالات میں کس طرح خود کو قابل قبول منوانا ہے اور کس احتیاط سے مسئلہ کشمیر پر بات کرنی ہے، ہمارے سیاستدان پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اور اگر کہیں ایسا نہیں ہوتا تو میڈیا پر لائیو تقریر کو سنسر کر دیا جاتا ہے یا پھر لائن آف کنٹرول کی طرف جانے والوں کو بھارتی بیانیے کو تقویت دینے کا کہہ کر باقی سب کو پیغام دیا جاتا ہے۔حالات اور وقت جو تقاضا کر رہے ہم اس کے برعکس چل رہے ہیں جس کے اثرات شاید ابھی تو نہیں لیکن مستقبل قریب میں نظر آئیں گے اور تب تک ہمارے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا ہو گا اور ہم مگر مچھ کے آنسو لیے کسی نئے بیانیے کی تلاش میں ہوں گے۔