حکومتی سطح پرکوئی ایسی جز وقتی اور طویل المدت اقتصادی پالیسیاں نظر نہیں آتیں جو ملکی صنعت کا پہیہ چلا سکیں، جو مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کے ساتھ نئی صنعتیں لگانے کیلئے ساز گار ماحول پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ صنعتی شعبہ جو سابقہ ادوار میں معاشی نمو کی بڑھوتری میں مثبت اشارے دے رہا تھا، انحطاط کا شکار ہے۔ سیمنٹ، سرامکس، آٹو اور تعمیراتی انڈسٹری میں پیداواری صلاحیت گھٹ چکی ہیں، خطرناک صورتحال یہ ہے کہ تقریباً 80فیصد لوہے کے کارخانے بند ہو چکے, سیمنٹ کے کارخانے صرف 30فیصد پیداواری صلاحیت پر چل رہے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال آٹو موبائل، ٹیکسٹائل و دیگر شعبوں کی بھی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=uRRhDjyakPI
کارخانے بند ہونے سے بےروزگاری بڑھ رہی ہے، غریب اور مڈل کلاس پس رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سلیکیٹید حکومت کے دوران مہنگائی میں ریکارڈ حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 9 سال کی بلند ترین سطح 12.7 فیصد تک جاپہنچی۔تیل، گیس ، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا کہ کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں جس سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہیں، جس سے صنعت کا شعبہ تباہ ہوچکا ہے۔ اور عوام کو بے روزگاری اور مہنگائی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر لیے گئے جائزے کے مطابق گزشتہ ماہ مہنگائی میں 1.3 فیصد اضافہ ہوا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سالانہ اعتبار سے ماہ نومبر میں شہری علاقوں میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں 16.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ماہانہ اعتبار سے یہ اضافہ 2.4 فیصد رہا، اسی طرح دیہی علاقوں میں سالانہ اعتبار سے مہنگائی میں 19.3 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ ماہانہ بنیاد پر یہ اضافہ 3.4 فیصد رہا۔
شہری علاقوں میں جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں ٹماٹر (149.41 فیصد)، دال ماش (11.72 فیصد)، دال مونگ (7.79 فیصد، گندم (6.86 فیصد)، آلو (6.72 فیصد)، گندم کا آٹا (4.74 فیصد)، پھلیاں (4.53 فیصد)، پیاز (3.82 فیصد)، خشک میوہ جات (3.22 فیصد)، دال مسور (2.66 فیصد)، سرسوں کا تیل (2.49 فیصد)، دال چنا (1.04 فیصد)، گھی (1 فیصد) شامل ہے۔
یہ مہنگائی اور بے روزگاری کی بدترین تصویر ہے، اس کے اثرات سماج میں بڑھتے ہوئے جرائم کی صورت میں برامد ہو رہے ہیں۔ جب لوگ تخلیقی اور کاروباری سرگرمیاں چھوڑ کر جرم کا راستہ اختیار کریں گے۔ تو انحطاط کا یہ سفر مذید تیز ہو گا۔
https://www.youtube.com/watch?v=IWbeVJwWau4&t=6s
تحریک انصاف کا بیانیہ کرپشن کے خلاف تھا، اور یہ خود کو اسٹیٹس کو کے خلاف سب سے بڑی تبدیلی کے طور پر پیش کرتی تھی، مگر حقیقت میں صورت یہ ہے تحریک انصاف تمام الیکیٹیبلز اور کرپٹ عناصر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور آج یہ جمہوریت کے خلاف اسٹیٹس کو کی سب سے بڑی علامت ہے، پچھلی حکومتوں نے 18ویں ترمیم کی صورت میں یا پارلیمانی روایات کے حوالے سے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، یہ حکومت اپنے فاشسٹ طرزعمل اور حماقتوں سے ان کو ریورس کرنے کی مرتکب ہوئی ہے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر الزام لگانے والی تحریک انصاف کے حکومتی وزراء خود کرپشن میں ملوث ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماوں پر نیب کیسز چل رہے ہیں۔ عمران خان پر خیبر پختونخواہ حکومت کے ہیلی کاپٹر کے غیر قانونی استعمال کا الزام ہے۔ بابر اعوان کے خلاف نیب ریفرنس، وزیر دفاع پرویز خٹک پر ان کے بطور وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کے وقت کا سرکاری اراضی سکینڈل کیس ہے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ محمود خان، سینیٹر محسن وزیر اور سینئر صوبائی وزیر برائے سیاحت پر بھی مالم جبہ سرکاری اراضی سکینڈل میں زمین اپنی من پسند کمپنی کو دینے کا الزام ہے، عمران خان کے چہیتے دوست زلفی بخاری پر آفشور کمپنیوں اور آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=n03Cb6mAn5I&t=20s
صوبہ پنجاب کی کابینہ کے اہم وزیر عبدالعلیم خان پر بھی کرپشن کے کیسز ہیں۔ ابھی پشاور ہائی کورٹ نے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت نے کسی وژن اور منصوبہ بندی کے بغیر منصوبہ شروع کیا۔ عدالت کے مطابق محکمہ ٹرانسپورٹ میں بی آر ٹی سیل قائم تھا، تاہم منصوبہ پی ڈی اے کو دیا گیا، پرویز خٹک، سابق وزیر ٹرانسپورٹ دو سابق ڈی جی پی ڈی اے، اعظم خان اور کمشنر پشاور کے درمیان کیا تعلق تھا؟ اپنے حصے لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟ مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ کیوں دیا گیا؟ اس طرح عدالت نے پشاور میٹرو کے منصوبے میں بے ضابطگیوں اور کرپشن کے حوالے سے بے شمار سوالات اٹھائے ہیں۔یہ وہ معاملات اور مقدمات ہیں جو نیب کے راڈار سے باہر رہے اور ان پر خاموشی سے نیب کے ادارے اور کردار پر کئی سوالات اٹھے۔ اس سارے جعلی احتساب نے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا اور کاروباری معاشی سرگرمیوں کو معطل کرکے رکھ دیا۔
اس سارے دور میں جمہوری طریقہ کار اور پارلیمانی روایات کے برعکس فاشسٹ طرزعمل اختیار کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی مدد سے قانون سازی کرنے کی بجائے آرڈیننس پرآرڈیننس لائے گئے اور پارلیمانی نظام کو بے توقیر کیا گیا۔
پارلیمنٹ پر تالے لگائے گئے اور ایوان صدر کوارڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا، موجودہ حکومت کے دور میں این ایف سی ایوارڈ کا اجرا نہ ہوسکا، وفاقیت کا ایک اہم ادارہ مشترکہ مفادات کونسل جس کا اجلاس تک نہ بلایا گیا۔ الیکشن کمیشن کے ممبران کی آئینی تقرری نہ ہوسکیں۔ حکومت کی فاسشٹ سوچ نے پاکستان میں پارلیمنٹ کو بےتوقیر کیا اور یہ وفاقیت کو کمزور کررہا ہے۔
زبان پر تالے لگانے اور انسانی آذادیوں پر قدغنیں لگانے کا جبر جاری ہے۔ اس کی زد میں میڈیا بھی ہے اور طلبہ بھی۔ نئی فکر پر ریاستی پہروں کی بہت بھیانک صورتیں ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=t9PYNfiLOhw
حکومت کی بدترین سفارت کاری کی صورت کشمیر کے معاملے میں نظر آئی، پشاور میٹرو کی طرح اس میں بھی حکومت کا نہ کوئی ویژن تھا، نہ منصوبہ بندی۔۔ جب عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر آئے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ اور تمام دعوے تب کھوکھلے دکھائی دئیے جب بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا جس کے لئے پاکستان حکومت بالکل تیار دکھائی نہیں دی۔ حکومتی وزرا ء کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی اور اور الزام تراشی میں مصروف رہے۔
ملکی اتحاد ، متفقہ پیغام اور قومی وحدت کا مظاہرہ کرنے کی ایک بھی کاوش حکومت کی جانب سے نہیں ہوئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=ActP7eEphaI&t=4s
جب سلیکیٹیڈ کہا جاتا ہے، تو لازمی مطلب ہے کہ کسی نے سلیکیٹ بھی کیا ہوگا، اور کوئی سلیکیٹر بھی ہوگا۔ 5 2جولائی 2018 ء عام انتخابات میں بدترین دھاندلی کو یہاں زیر بحث لائے بغیر جب عمران خان کہتے ہیں کہ ’فوج، پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے۔‘ جب وفاقی وزیر زرتاج گل کہتی ہیں کہ ’فوج ہماری ترجمان ہے، اور عدلیہ کے ہم ترجمان ہیں۔‘
ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے دفاعی تجزیہ نگار جب تحریک انصاف کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وارفئیر کے وارئیرز جب سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ملک کے اداروں کے کردار پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اور ان اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے جوکہ کسی بھی حوالے سے ملک اور ان اداروں کے اپنے مفاد میں نہیں۔
اب جب انحطاط کی صورت یہاں تک پہنچی ہے۔ تو ہمیں عمران خان کا وجود بطور سلیکیٹیڈ وزیراعظم اس انحطاط اور جمود کی واحد صورت دکھائی دیتا ہے۔ سلیکیٹیڈ وزیراعظم کا فاشزم، تکبر اور نان سیریس رویہ آج پاکستان کے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نااہلی اور نالائقی کا حالیہ مظاہرہ تب دیکھنے کو ملا جب حکومت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی ایک درست سمری ایک درست نوٹیفیکشن سپریم کورٹ میں پیش نہ کرسکی۔ اور جسٹس کھوسہ کو کہنا پڑا کہ ’آرمی چیف کا کام ملک کا دفاع ہوتا ہے وہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر ڈرافٹنگ اور سمریاں تیار نہیں کرسکتا، اس سے وقت اور انرجیز کا ضیاع ہوتا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=yLym6Rle-tY
گزشتہ دن مضحکہ خیز خبریں چل رہی تھیں کہ توسیع کے نوٹیفیکیشن سے متعلق مشاورتی اجلاس میں آرمی چیف بھی پہنچ گئے ہیں۔‘
اب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہے سپریم کورٹ نے حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے چھ ماہ کا وقت دیاہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن جماعتوں کا موقف اور حکمت عملی سامنے آئے گی۔
اسی دوران پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا ایک معنی خیز بیان سامنے آیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’پہلے وزیر اعظم تبدیل ہوگا، پھر آئینی ترمیم ہوگی۔‘اور اب یہ تاثر طاقتور حلقوں اور اتحادی جماعتوں میں بھی مضبوط ہورہا ہے کہ سلیکیٹیڈ وزیراعظم حکومت چلانے کی صلاحیت سے عاری ہے ۔ اب پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو جمود کے ہر وجود کو توڑتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا، اسی سے سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوگا، بہتری کی کوئی صورت ںظر آئے گی، اداروں کی ساکھ بحال ہوگی۔ ان کے کردار پر انگلیاں نہیں اٹھیں گی، لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اور ترقی و خوشحالی کے آثار نمودار ہوں گئیں۔ موجودہ سلیکیٹیڈ وزیراعظم کی تبدیلی سے یہ سب ممکن ہے۔