سندھ میں صحت کا شعبہ اتنا بھی غیر فعال نہیں

02:14 PM, 8 Dec, 2019

رب نواز بلوچ
میرا نام اللہ وسایا ہے، میں ڈیرہ غازی خان کا رہائشی ہوں، میرا اپنا چھوٹا سا کاروبار ہے، اپنے گاؤں میں ایک کریانے کی دکان چلاتا ہوں، میری عمر 34 سال ہے، میں 4 بچوں کا باپ ہوں، تین سال سے بیمار رہنے لگا تھا، میری طبیعت ناساز ہونے پر اور مختلف قسم کےٹیسٹ کرانے کے بعد مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ کو جگر کا عارضہ لاحق ہے، آپ کا علاج الشفاء ہسپتال اسلام آباد سے ہو گا، میں  چھوٹے بھائی کو لیکر اسلام آباد پہنچا، وہاں پر ڈاکٹرز نے کچھ مزید ٹیسٹ کرنے کے بعد میرے علاج کا تخمینہ تقریباً 37 لاکھ روپے لگایا۔

یہ اتنے پیسے تھے کہ میں دکان اور گھر بھی بیچ دوں تو پیسے پورے کرنا ناممکن تھا، وہ گھر میرے والدین کا گھر تھا جس میں مجھ سمیت بوڑھے ماں باپ، ایک معذور بہن، چھوٹا بھائی اور اس کے بیوی بچے رہ رہے تھے۔

وہاں پر کسی نے مشورہ دیا کہ لاہور چلے جائیں وہاں شاید کم پیسے لگیں۔ اگلے ہی دن لاہور چلاگیا وہاں پر میری بیماری کا تخمینہ 28 لاکھ روپے لگایا گیا۔

میرے ایک پڑوسی جو نوابشاه میں محنت مزدوری کرتا تھا مجھے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا بتایا، میں وہاں سے سیدھا روہڑی سٹیشن سے اتر کر سکھر اور پھر رانی پور کی ویگن میں بیٹھ کر گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچ گیا، مریضوں کا رش لگا ہوا تھا، دو گھنٹے بعد میری باری آگئی، ڈاکٹر صاحب کو او پی ڈی میں تمام رپورٹس جو میں نے ڈیرہ غازی خان، اسلام آباد اور لاہور سے کروائیں تھیں دکھائیں، ڈاکٹر نے مجھے دو دن بعد آنے کا کہا میں نے التجا کی اور اپنی ساری روداد سنائی، ڈاکٹر صاحب نے مجھے داخل کردیا اور کہا کہ دو دن کے بعد کراچی سے اسپیشلسٹ آئے گا اور آپ کا علاج شروع کریں گے۔

دو دن بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کے جگر کی پیوندکاری ہو گی اور ٹرانسپلانٹ کیلئے مجھے 2 ماہ بعد کی تاریخ دے دی، جب میں نے خرچہ کا پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کا علاج بلکل فری ہو گا، وہ لمحہ میرے لیئے بیان کرنے کے قابل نہیں۔

ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اپنا ذاتی نمبر دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کی تکلیف میں اضافہ ہوا تو ہم آپ کا ایمرجنسی میں ٹرانسپلانٹ کریں گے۔

میرا نام سعد اللہ خان ہے میرا تعلق ضلع ہنگو سے ہے میری عمر 21 سال ہے، مجھے ہر وقت سانس کی تکلیف رہتی تھی، تھوڑا سا چلوں یا دوڑ لگاؤں تو سانس اکھڑنے لگتی تھی، ڈاکٹرز نے مجھے بتایا کہ آپ کے دل میں سوراخ ہے جو عمر بڑھنے پر ٹھیک ہوجائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔

جب میں 13 سال کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا، میرے گھر میں مجھ سے 2 سال بڑے بھائی اور مجھ سے چھوٹی 2 بہنیں اور ایک ماں ہے، ہم اپنے چچا کے گھر رہتے ہیں، میرے بھائی ہوٹل پر کام کرتے ہیں، جبکہ میرے چچا ایف سی میں نوکری کرتے ہیں۔

ایک سال قبل میری حالت کافی خراب ہوئی تو میرے چچا مجھے پشاور لے کر آئے، وہاں ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ کا دل 30 فیصد کام کررہا ہے۔ آپ کا فوراً آپریشن کرنا ہوگا آپریشن کی لاگت 12 لاکھ روپے ہے، میرے چچا اتنے پیسوں کا سن کر پریشان ہوگئے۔ وہیں موجود ایک ڈاکٹر نے ہمیں کراچی کا بتایا کہ وہاں چلے جائیں آپ کا صرف کرایہ خرچ ہوگا باقی تمام علاج بلکل مفت ہوگا۔

ہم نے اگلے ہی دن کراچی کا رخ کیا اور این آئی سی وی ڈی پہنچ گئے، ہسپتال میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں تھی، مریضوں کا کافی رش لگا ہوا تھا کہ اچانک میرے چچا کو ایک دوست مل گیا جو کسی مریض کو لیکر آیا تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب سے پشتو زبان میں بات کررہا تھا، ہمیں جلد ہی ڈاکٹر کے کمرے میں لیکر گیا، ہمارے پاس موجود ٹیسٹ دیکھ کر کچھ مزید ٹیسٹ کروانے کا کہا اور اگلے دن آنے کا کہا۔

چچا کے دوست ہمیں ہوٹل میں لے گئے جہاں وہ 15 دن سے رکے ہوئے تھے اور اپنے مریض کی مرہم پٹی کروا رہے تھے، وہ مریض ان کے والد تھے جنہیں دل میں تکلیف کے باعث یہاں لایا گیا اور ان کا دل کا آپریشن این آئی سی وی ڈی میں ہوچکا تھا۔

اگلے دن مجھے داخل کردیا گیا، مجھے پیس میکر اور اسٹنٹ ڈالا گیا، جہاں پشاور میں مجھ سے 12 لاکھ روپے مانگے جارہے تھے وہیں آج میرا بلکل مفت علاج ہو رہا تھا، میرے چچا سے پانی کی بوتل کے بھی پیسے نہیں لیئے جارہے تھے۔

ضلع خیرپور کی تحصیل ہسپتال گمبٹ میں 100 سے زائد جگر کے بلکل مفت ٹرانسپلانٹ ہوچکے ہیں۔ جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کم از کم خرچہ 20 لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ 70 لاکھ روپے ہے۔

یہ خبر پاکستان کے صرف چند ہی چینلز اور شاذونادر ہی کسی نیشل اخبار نے  دی ہو گی۔ حالانکہ یہ خبر اتنی بڑی ضرور تھی کہ تمام چینلز اور اخبارات میں اسے مناسب کوریج ملنی چاہیئے تھی جو نہیں ملی۔

اسی طرح حکومت سندھ کے تعاون سے چلنے والے این آئی سی وی ڈی کے سندھ بھر میں دس مکمل سیٹلائیٹ ہسپتال اور 13 چھوٹے سیٹلائیٹ یونٹس قائم ہیں، جہاں روزانہ 6000 مریضوں کا علاج بلکل مفت ہے۔این آئی سی وی ڈی کراچی دنیا کا واحد ہسپتال ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں بلکل مفت انجوپلاسٹی ہوتی ہے۔

سائبر نائیف روبوٹک سرجری جو کینسر کا بغیر آپریشن علاج ہے، یہ روبوٹک مشینری لیزر کے ذریعے کینسر کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، سائبر نائف کی اس وقت پوری دنیا میں تقریباً دو درجن مشینیں موجود ہیں جبکہ کراچی میں ان کی تعداد دو ہے، کینسر کے اس علاج پر فی مریض خرچہ 70 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ روپے ہے یہ علاج حکومت سندھ کے تعاون سے بلکل مفت ہورہا ہے۔


قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) ،ایس آئی یو ٹی، گمبٹ انسٹیٹویوٹ آف میڈیکل سائنسز، سائبر نائف روبوٹک سرجری و دیگر بین الاقوامی طرز کے ہسپتال قائم کرنے کے بعد سندھ حکومت نے صوبے کے پہلے سرکاری بون میرو یونٹ کا افتتاح بھی ہو چکا۔

چونکہ سندھ کے پاس اتنے وسائل نہیں اور پورے پاکستان سے آئے غریب اور لاچار مریضوں کا بوجھ ان ہسپتالوں پر بڑھ رہا ہے۔

اس لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ باقی صوبوں میں سندھ کے طرز کے ہسپتال بنائے یا پھر سندھ میں موجود ان ہسپتالوں کو وفاق فنڈنگ کرے تاکہ ایسے اداروں کو اچھے طریقے سے چلایا جاسکے۔

 
مزیدخبریں