سرینا عیسیٰ نے کہا سپریم کورٹ رولز کے مطابق جو بینچ فیصلہ کرتا وہی نظر ثانی بھی سنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں لگتا سپریم کورٹ اپنے رولز کو فالو کیوں نہیں کر رہی، میں اس کیس میں فریق نہیں تھی، فریق نہ ہونے کے باوجود جسٹس عمر عطاء بندیال نے 81 مرتبہ میرا نام لیا۔ سرینا عیسی نے مزید کہا کہ تین معزز ججز کو بینچ سے نکالا گیا، تین معزز ججز کو نکال کر میرے حقوق متاثر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو6 رکنی بینچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا۔ سرینا عیسیٰ کا باری باری تمام ججز سے ایک ہی سوال دوہرایا کہ کیا 6 جج سات رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتے؟ میرے مقدمے کی سماعت کے لیے 10 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔
بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں مانتا ہو6 رکنی بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا تاہم آپ کے نکات رجسٹرڈ کر لیے ہیں۔ آپ حقائق کو نظر انداز کر رہی ہیں ، ہم نظر ثانی اپیل نہیں سن رہے ہیں اور بینچ کی تشکیل کیخلاف درخواست سن رہے ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اگر غلطی ہوئی تو معزرت خواہ ہوں۔ لیکن چیف جسٹس اس مقدمے میں فریق ہیں ، چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن تھے جس نے شو کاز نوٹس جاری کیا۔
اس پر جسٹس بندیال نے کہا کہ آپ کو عدالت کے طریقہ کار کے بارے علم نہیں اس ادارے اور چیف جسٹس کے بارے سوالات اتھاءے.
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں حکومت کے طرزعمل پر احتجاج کرتی ہو شہزاد اکبر اور وزیر قانون پریس کرکے راءے عامہ اور اس عدالت پر اثر انداز ہونے۔
دوسری طرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بھی بینچ پر اعتراض کردیا۔ اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نظر ثانی کیس ان سات ججوں نےسنا جنہوں نے اصل کیس سنا تھا ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 6 رکنی بینچ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ دے سکتا ہے، آپ نے جس انداز میں میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد قاضی فائز عیسٰی کے بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں، چیف جسٹس بطور چیئرمین جوڈیشل کمیشن ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ ہمارے لیے محترم ہیں اور ہماری فیملی کی طرح ہیں، سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوے احتیاط برتیں، جسٹس عمر عطا بندیال
صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی اس مقدمے کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی مرکزی مقدمے کی تھی۔ بنچ کی تشکیل کے نقطے پر دلائل کیلئے وقت درکار ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں علم ہے آپ طبعیت کی خرابی کے باوجود پیش ہوئے،
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے دوران سماعت ایک لکھی ہوئی تحریر عدالت میں پڑھی جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ جج کی اہلیہ اور بچے ہونے کی پاداش میں ایسا سلوک کیا گیا عدلیہ کا احتساب ہونا چاہیے، احتساب کیلئے ہمارا ہی انتخاب کیوں کیا گیا، میں 1982 سے ٹیکس دے رہی ہوں۔
سرینا عیسیٰ نے مزید کہا کہ عدالت صدر مملکت، وزیراعظم عمران خان اور وزیر قانون سے بھی انکے اور اہل خانہ کی ٹیکس تفصیلات کی چھان بین کرے۔ عدالت شہزاد اکبر سمیت تمام فریقین سے انکے اہل خانہ کے اثاثوں کی چھان بین کرے۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ جذباتی ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جاننا چاہتی ہوں مجھے اور میرے شوہر کو کیوں نشانہ بنایا گیا، پوری عدلیہ میں صرف میں نے اور میرے شوہر نے اثاثے ظاہر کیے، میرے شوہر کو ٹارگٹ کرنے کیلئے انکم ٹیکس قانون کا استعمال کیا گیا، وزیراعظم، وزیر قانون سمیت تمام فریقین کے ٹیکس گوشوارے مانگے جائیں، تمام فریقین اپنے اہلخانہ کے بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس گوشوارے نہ دینے سے ظاہر ہوگا کہ فریقین منافقت کر رہے،میڈیا نے ہمارے خلاف دہرا معیار اپنائے رکھا ہے اور ہمارے خلاف پریس کانفرنسز کی جارہی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سرینہ عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی ہو گئی ہیں عدالت میں اپنی گفتگو روک دیں، اگر آپ کہیں تو ہم آپ کی پہلے کی گئی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ فراہم کر دیتے ہیں تاہم ہم بنچ کی تشکیل سے متعلق اعتراض بارے مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔
وکیل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ منیر اے ملک نے عدالت سے استدعا کہ ہمیں ویڈیو لنک کی سہولت فراہم کی جائے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ویڈیو لنک کی سہولت فراہم کر دیں گے۔
کیس کی سماعت جمعرات 10 دسبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔