اردو نیوز میں شائع ہونے والی رائے شاہ نواز کی رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ شہر کے مختلف تاجروں سے اس حوالے سے بات کی ہے اور اس صورت حال کے بارے میں بتایا۔
نظام سنز پرائیویٹ لمیٹڈ گارمنٹس کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر علی انور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس واقعے نے بزنس کمیونٹی کے لیے عجیب صورت حال پیدا کر دی ہے، اور اس خوف کی فضا میں کام متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ہماری کپمنی کی ایک آڈٹ ٹیم نے سری لنکا سے آنا تھا۔ پیر کے روز انہوں نے آنے سے معذرت کر لی ہے۔‘
گارمنٹس کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے بتایا کہ ’صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ایک ملازم نے اردن سے منگل کو پہنچنا تھا اس نے بھی آخری وقت میں آنے سے معذرت کرلی ہے، اور یہ صرف ہم اپنی بات نہیں کر رہے سیالکوٹ میں بیشتر کمپنیاں بین الاقوامی معیار کا کام کر رہی ہیں اس لیے ان کے آڈٹ بھی بین الاقوامی ادارے ہی آکر کرتے ہیں۔‘
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سلمان میر سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عارضی صورت حال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس شہر نے جتنا بڑا واقعہ دیکھا ہے اور جیسے یہاں کی صنعت کا براہ راست تعلق عالمی منڈیوں سے ہے تو اس میں ایسا ہونا نارمل عمل ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس واقعے کا انڈسٹری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یقیناً اس کے دور رس نتائج ہوں گے، لیکن ابھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ جز وقتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کچھ لوگوں کے آرڈرز لیٹ ہو سکتے ہیں اور آڈٹ لیٹ بھی ہوں گے، ابھی ہمیں ایسی کوئی شکایت نہیں ملی کہ آرڈرز منسوخ ہوئے ہیں، کیونکہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ کئی بڑے برانڈز نے تو ان فیکٹریوں اور کمپنیوں میں اپنے شیئر رکھے ہوئے ہیں اور کاروبار جذباتی عوامل سے ایک حد تک متاثر ضرور ہوتا ہے اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں۔‘
ایک اور بزنس مین محمد فاروق (فرضی نام) نے بھی اردو نیوز کو بتایا کہ اس ہفتے ان کی دو ٹیموں نے بیرون ملک سے آنا تھا جو نہ صرف آڈٹ کرنے آرہی تھیں بلکہ جس برانڈ کا وہ مال تیار کر رہے ہیں ان کی طرف سے وقت پر آرڈر کو تیار کرنا بھی شامل تھا۔
’ابھی ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ٹیمیں نہیں آ رہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صورت حال عارضی ہے اور حالات معمول پر واپس آجائیں گے۔‘
علی انور نے بتایا کہ بین الاقوامی معیار کی پراڈکٹ بنانے والی کمپنیوں کے آڈٹ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک آڈٹ وہ ہوتا ہے کہ جو بھی بین الاقوامی برانڈ آرڈر دیتا ہے وہ اپنے ملکی قوانین کے مطابق فیکٹری میں کام کرنے والے ورکرز کو دی جانے والی سہولیات، صحت کے اصول، صنفی امتیاز اور صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ خام مال کی کوالٹی کی پرکھ کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یعنی اگر کسی ملک میں چائلڈ لیبر ممنوع ہے اور وہاں کا برانڈ کسی دوسرے ملک سے پراڈکٹ تیار کروا رہا ہے تو وہ اپنی حکومت کو جواب دہ ہے کہ جس ملک کی فیکٹری سے وہ پراڈکٹ تیار کروائی گئی ہے وہاں چائلڈ لیبر نہیں تھی اور اسی طرح دیگر اصول بھی آڈٹ کے زمرے میں آتے ہیں جو اس ملک کے قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں۔
علی انور کے مطابق ’دوسری قسم کے آڈٹ کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہم نے بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق چلنا ہوتا ہے تو ہم خود بھی خود مختار کمپنیوں سے آڈٹ کرواتے ہیں اور نئی کاروباری شراکت داریوں اور معاہدوں میں ان آڈٹ رپورٹس کو استعمال کرتے ہیں جس سے بڑے بڑے برانڈز ہم پر بھروسہ کرتے ہیں، تو یہ آڈٹ چلتے رہتے ہیں کبھی برانڈ کی ضرورت میں تو کبھی ہماری، اور جب تک یہ آڈٹ مکمل نہیں ہوجاتے کاروباری عمل مکمل نہیں ہوتا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ سیالکوٹ میں سری لنکن ماہرین زیادہ کیوں ہیں؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سری لنکا اور بنگلہ دیش اس وقت گارمنٹس کی دوڑ میں ہم سے بہت آگے ہیں اور انہوں نے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے ہیں جو موجودہ دوڑ کے لیے بہت اہم ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی اور ان طریقوں سے روشناس ہونے کے لیے یہاں یہی ٹرینڈ چل رہا ہے کہ ہم ایگزیکٹیو عہدوں کے لیے انہی ملکوں کے اہل افراد کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہر بڑی گارمنٹس یا کھیلوں کا سامان بنانے والی کمپنی میں سری لنکن اور بنگلہ دیشی نظر آئیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق سیالکوٹ کی 50 فیصد فیکٹریوں میں غیر ملکی ہی ایگزیکٹیو عہدوں پر فائز ہیں۔ راجکو فیکٹری میں بھی پریانتھا ایک ایگزیکٹیو عہدے پر فائز تھے۔
خیال رہے کہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے مطابق سیالکوٹ کی صنعت کا قومی برآمدات میں حصہ 2.2 ارب ڈالر ہے، جبکہ یہاں کھیلوں کے سامان، گارمنٹس، گلابی نمک، چمڑا اور آلات جراحی کی عالمی معیار کی بڑی بڑی فیکڑیاں ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے برانڈز کا مال تیار کرتی ہیں۔