ڈی پی او سیالکوٹ کے مطابق یہ ملزم راجکو فیکٹری کے سٹچنگ یونٹ کا ملازم تھا۔ اس کا نام صبور بٹ ہے اور اسی نے ورکرز کو اشتعال دلایا تھا۔ آنجہانی پریانتھا کمارا کے خلاف ہجوم اکٹھا کرنے میں یہی شخص ملوث ہے۔ ملزم اس وقت جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ میں ملوث مزید آٹھ ملزموں کو موبائل کالز ڈیٹا اور فوٹیج کی مدد سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیگر کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ان گرفتار ملزموں میں آنجہانی پریانتھا کمارا کی لاش کی بے حرمتی کرنیوالا ملزم ذاکر سلمان بھی شامل ہے جبکہ دیگر گرفتار ملزموں میں تشدد کرنے والے، اشتعال دلانے والے اور ویڈیو بنانے والے شامل ہیں۔
خیال رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں ایک فیکٹری میں بطور مینجر نوکری کرنے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو ورکرز نے توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے قتل کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پریانتھا دیاودھنہ کے قتل کے پس پردہ حقائق
خیال رہے کہ 3 دسمبر بروز جمعہ کے روز سیالکوٹ میں ایک ایسا المناک سانحہ پیش آیا جس کے بعد ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھُک گیا ہے اور ہر باضمیر انسان اشکبار ہے۔
پریانتھا دیاودھنہ کا تعلق سری لنکا سے تھا۔ وہ اپنے دو انجینئر بھائیوں سمیت 2010ء سے پاکستان میں مقیم تھا۔ وسنتھا کمار اب بھی پاکستان میں بطور انجینئر خدمات انجام دے رہے ہیں، جبکہ کمالا نے چند سال قبل پاکستان چھوڑ دیا تھا۔
پریانتھا دیاودھنہ نے 2 دسمبر کو سپروائزر کو فیکٹری کی صفائی کے احکامات جاری کیے اور یہ بھی کہا کہ مشینوں اور دیواروں سے سٹیکرز کو اتار دیں۔ اس نے اتروا دئیے لیکن ایک ورکر نے اسے دوبارہ لگا دیا جس پہ تحریر تھا کیا آج آپ نے درود شریف پڑھا؟۔
جمعہ کی صبح کو فلور پر صفائی کی چیکنگ کے دوران جب مینجر پریانتھا دیاودھنہ نے سٹیکر لگے دیکھے تو خود ہی اتار دئیے اور ورکرز پر غصہ کیا۔
سپروائزر نے ورکرز کو فیکٹری کے اسی میدان میں جمع کیا جہاں وہ اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے جمع ہوتے تھے۔ بہت سے افراد نے مداخلت کی تو خاموشی ہو گئی لیکن آدھے گھنٹے کے بعد ایک ہجوم جمع ہو گیا اور پریانتھا دیاودھنہ کو دفتر سے نکالنے کی کوشش کی۔
اس ہجوم میں وہ افراد بھی شامل ہو گئے جو 2013ء سے 2020ء تک نکالے گئے تھے۔ انہیں ان کے فیکٹری میں موجود دوستوں اور عزیزوں نے بلوا لیا تھا۔
ملک عدنان نے ان کی منت سماجت کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ فیکٹری سے چلے جائیں گے اور مقدمہ درج کروا دیا جائے لیکن ہجوم ہٹ نہیں رہا تھا۔
پریانتھا دیاودھنہ نے ملک عدنان کو معافی کی پیشکش کی۔ ملک عدنان نے پریانتھا دیاودھنہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ معافی کو قبول نہیں کریں گے، آپ یہاں سے اسی وقت چلے جائیں تو معاملہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پریانتھا دیاودھنہ کا جواب تھا کہ وہ یہاں آٹھ سال سے کام کر رہے ہیں۔ میں ایک ایماندار شخص ہوں، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک مقدس سٹیکر ہے، میں معافی مانگنے کو تیار ہوں لیکن بھاگنے کو نہیں۔ ملک عدنان نے انہیں چھت پر چھپایا مگر وہ اس جتھے کے ہاتھ لگ گئے۔
بدقسمتی سے اس روز فیکٹری مالک بیرون ملک نجی دورے پر تھا جس باعث ملازمین نے انتہائی قدم اٹھایا۔ البتہ مالک کی غیر موجودگی میں شہباز بھٹی نے ہاتھ جوڑے منت سماجت کی جیسا کہ آپ نے ویڈیوز میں بھی دیکھا وہ ایک شخص کو کھونے سے ڈر رہے تھے جس نے ان کی فیکٹری کو پہلے کی نسبت آٹھ سال میں سات گنا منافع دیا تھا۔
فیکٹری میں عمومی طور پہ لڑائی جھگڑوں میں پیش پیش رہنے والے امتیاز بلی، طلحہ نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور لاش کو فیکٹری کے باہر جاکر آگ لگا دی۔ جلانے کے بعد فیکٹری ورکرز فون کالز پہ ایک دوسرے کو مینجر واصل جہنم ہو گیا کے میسجز کرتے رہے۔
سانحہ سیالکوٹ جیسے افسوسناک واقعات نے شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی پر پھر سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد منظور ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کے 20 میں سے صرف 9 نکات پر 7 سال بعد بھی عمل نہیں ہوسکا۔ انتہاپسندی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کی روک تھام نہ کی گئی تو مذہب کے نام پر عدم برداشت کا رویہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔