فرانسیسی پولیس کے ذرائع نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مشتبہ ملزم فرانس کو مطلوب لوگوں کی فہرست میں شامل تھا۔ اسے ترکی کی طرف سے 2019ء میں جاری کیے گئے وارنٹ کی بنیاد پر گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
یہ سعودی شہری جیسے ہی چارلس ڈی گال ہوائی اڈے پر پہنچا تو پاسپورٹ چیکنگ کے بعد مشتبہ افراد میں سے ایک کے نام کی مماثلت ہونے کی وجہ سے اسے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ سعودی سفارتخانے نے اس پر شدید احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اسے فرانسیسی حکام کی غلطی قرار دیا کہ اس نے ہمارے ایک عام شہری کو حراست میں لے لیا ہے۔
سعودی سفارت خانے نے مذکورہ شخص کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا جمال خاشقجی کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خیال رہے کہ فرانسیسی قانون کے مطابق حکام کے پاس کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد 48 گھنٹے ہوتے ہیں، اسی مدت میں انھیں اس کی شناخت کی تصدیق کرنا ہوتی ہے، ورنہ اسے رہا کر دیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ 33 سالہ العتیبی ان چھبیس سعودیی شہریوں میں سے ایک ہے جو ترکی کو جمال خاشقجی کے قتل میں مطلوب ہیں۔ گذشتہ ہفتے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018ء کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ سرکاری کاغذات کے حصول کے مقصد سے استنبول میں قائم اپنے ملک کے قونصل خانے میں داخل ہوئے اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے۔
اس کے بعد کے مہینوں تک متضاد خبریں سامنے آئیں کہ ان کی موت کیسے ہوئی؟ ان کی باقیات کا کیا ہوا، اور اس کا کون ذمہ دار تھا؟ اس جرم نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔