ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے معاشی مفادات کا تجزیہ کرتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے ایک اہم بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ہم ''جیو اسٹرٹیجک سے ''جیو اکنامک'' کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس کی خواہش کا اظہار تو کیا گیا لیکن عملاً اس کی جانب نہیں گئے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سال کے اندر تقریباً 30 ارب ڈالر اکھٹے کرنے ہیں۔ مجھے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کا حصہ بننے کے علاوہ اس کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں واحد ملک امریکا ہے جس کیساتھ ہماری برآمدات سرپلس ہے۔ باقی تقریباً ساری دنیا سے جو ہم تجارت کرتے ہیں، اس میں ہمیں خسارے کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔ آمدن کے حوالے سے امریکا ہمارا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ امریکی سمٹ میں نہ جانے کا فیصلہ جیو اسٹریٹجیک کو سامنے رکھ کیا گیا بجائے اس کہ اس معاملے میں جیو اکنامک کو ترجیح دی جاتی۔
معاشی ماہر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ وزرا اور ترجمانوں کی باتیں عام آدمی سنتا ہے اور نہ ہی ان پر یقین کرتا ہے بلکہ وہ اپنے تجربے سے چیزوں کو دیکھتا ہے اور یہ آپ کو ٹرانسپریسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں واضح نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی 93 فیصد عوام کے مطابق مہنگائی اس ملک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 86 فیصد لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری آمدن گرتی جا رہی ہے۔ حکومت لاکھ کہے کہ ہمارے معاشی اعشاریے مثبت ہے لیکن اپنی موٹر سائیکل میں 146 روپے کا فی لیٹر پیٹرول ڈلوانے والا عام آدمی جانتا ہے کہ ملکی معیشت کس سمت میں جا رہی ہے۔