نجی نیوز چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور اینکر نے کہاکہ صدر مملکت کے ذریعے عمران خان کو واضح پیغام بھیجوا دیا گیا ہے۔کچھ وزراء ایسے ہیں جو کہ ان کے ہینڈلز ہیں ان کو بھی واضح کر دیا گیاہے کہ اب اگر کوئی فضول بات کی تو جو حال سینیٹراعظم سواتی کا ہوا ہے وہی ان کا ہوگا۔ اگر عمران خان بھی کرے گا تو اس کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ہم نے اپنی فوج کا تحفظ کرنا ہے اور کسی کو اجازت نہیں دینی کہ کوئی اس قسم کی حرکت کرے۔ ایف آئی آر کا کیا ہے وہ تو چند سیکنڈز میں کٹ جاتی ہے حکومت کو بھی پتا نہیں چلتا لوگ ایف آئی آر کٹوا لیتے ہیں۔ بعد میں فون کال آتی ہے تو ایس ایچ او اٹھا کر لے جاتا ہے۔
نئی عسکری قیادت کی دو نمایاں باتیں ہیں ایک تو یہ کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت سے دور رہیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر اب کسی چیف یا کسی افسر کی ٹرولنگ ہوئی تو سختی کے ساتھ نپٹا جائے گا۔ اور قطعی طور پرلحاظ نہیں کیا جائے گا کہ عمران خان ہے یا نجم سیٹھی ہے یا کوئی اور ہے۔ سبق سکھایا جائے گا۔
نئی قیادت نے تمام گزشتہ معاملات کو صاف کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ جن کے معاملات تھے وہ چلے گئے ہیں۔ اب ہم پیچھے ہٹنا چاہ رہے ہیں اس میں رُکاوٹ نہ پیدا کریں۔ ہم خود احساس کر رہے ہیں۔ اور اگر اب پھر آپ ہمیں گندا کرنے کی کوشش کریں گے تو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ پیغام جاچکا ہے۔ عمران خان صاحب کو بھی پیغام جاچکا ہے کہ آرمی چیف اپنے کام سے سروکار رکھیں گے۔ اب یہ ڈرٹی ہیری وغیرہ سب بند کرنا ہوگا۔ اگر نہیں ہو گا اور اگر کوئی بات کرے گا تو ان کو پتہ چل جائے گا۔ اور یہ حکومت چھپ چھپ کر ہنسے گی کہ "ہور کرو "۔ یہ خود ہی نپٹ لیں گے ۔
صدر صاحب کو پیغام میں بتادیا گیا ہے کہ " اسی پھٹے چک دیاں گے تُسی ہُن باز آجاو"۔
یہ تمام تھیوریاں جو آج کل چل رہی ہیں جنرل باجوہ کے حوالے سے، ایک حد تک تو یہ حقیقت ثابت ہو رہی ہیں مگر اس میں پھر اور لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ جنرل باجوہ کا، جنرل فیض کا نام آرہا ہے بعد ازاں کسی اور کا نام سامنے آجائے گا۔ یہ لوگ تو چلے گئے بعد میں کسی حاضر سروس کا نام بھی آسکتا ہے کہ یہ اس ٹولے کا حصہ تھے۔ یہ سب بھی بند کرنا پڑے گا ۔ جتنی بات نکلنی تھی وہ نکل آئی ہےکوئی بات چھپی نہیں رہی۔ اب یہ ہدایت آئےگی "بس کرو ہن بہت ہو گیا"۔اب آہستہ آہستہ جنرل باجوہ پر بھی سب چپ ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل نجی نیوز چینل کے پروگرام "آن دی فرنٹ” میں پروگرام اینکر کامران شاہد سے گفتگو کرتے ہوئے اور صحافی مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ کمان سنبھالنے کے بعد آرمی چیف عاصم منیر نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی جس میں صدر نے چیئرمین تحریک انصاف کا پیغام آرمی چیف کو پہنچایا جس میں عمران خان کا موقف تھا کہ ہمارا اختلاف اور جھگڑا آپ سےیا فوج سے نہیں بلکہ ایک مخصوص شخصیت سے تھا تاہم اب وہ جا چکے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ اب ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔
ملاقات کے دوران صدر مملکت نے آرمی چیف کو پیشکش کی کہ عمران خان ان سے ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف عاصم منیر نے ان کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں غیرسیاسی ہی رہنے دیں۔ ہم ان سے فون پر کوئی گفتگو نہیں کریں گے۔