ملک کے کونے کونے میں جہاں بھی دھرتی انسانی خون سے سرخ ہو جاتی، احسان اللہ احسان اس خونی واردات کی ذمہ داری قبول کرتے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق احسان اللہ احسان اب فرار ہو چکے ہیں۔ یہ خبر قوم کے لٸے بہت بڑا دھچکہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ریاست کہ وہ قیدی تھے یا معتبر مہمان؟ احسان اللہ احسان جب حراست میں لانے کے بعد میڈیا پر لاٸے گٸے تھے تو ایک مجرم کو اجلے لباس میں دیکھ کر بھی قوم کو حیرت ہوٸی تھی کہ محصوم انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرنے والے شخص کے چہرے پر ندامت کے کوٸی آثار نہیں تھے۔ قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہیں
کہ بھول جاٸے کہ اپر دیر میں جنرل احسان شہید کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے طالبان کو پشاور میں دفاتر کھولنے کی دعوت دی تھی کیونکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آٸی کی حکومت تھی اور عمران خان کو طالبان خان کہا جاتا تھا۔
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جاٸے تو احسان اللہ احسان کے جراٸم کلبھوشن سے مختلف نہیں ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری سوات میں دوبارہ قومی پرچم سربلند کرنے کے بعد ایوان صدر سے رخصت ہوٸے تو راولپنڈی جیل کے مکین بن گٸے۔ جیل میں عدالت کے حکم کے باوجود ان کی صاحبزادیوں
کو ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی حتیٰ کہ اسپتال میں شدید علالت کے باوجود خاندان کے فرد کو ان کی تیمار داری کی اجازت نہیں تھی مگر احسان اللہ احسان ریاست کے ایسے قیدی تھے کہ آسانی سے فرار ہو گٸے۔
یہ بات ہضم ہونے والی نہیں ہو۔ آج ہی شام اسلام آباد کے صحافی کہہ رہے تھے کہ احسان اللہ احسان کے فرار پر غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیا بھول گٸے ہو کہ دہشت گردوں سے مزاحمت کرنے والی بینظیر بھٹو کو سرعام قتل کرنے والے تمام ملزم رہا ہو چکے؟ سوات میں دوبارہ قومی پرچم طلوع کرنے والے آصف زرداری کا کیا حشر ہوا؟ سبق کیوں نہیں سیکھتے؟ احسان اللہ احسان مہمان تھے۔