اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر عمار علی جان کے خلاف فروری 2019 میں ایک کیس بنایا گیا تھا جب انہوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ارمان لونی کو قتل کئے جانے کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اشتعال انگیز تقریر کی. جس کی بناء پر انہیں صبح 4 بجے ان کے گھر سے گرفتار بھی کیا گیا تھا بعد ازاں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
انہیں اس کیس میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ایک دن بعد انکی تنظیم حقوقِ خلق موومنٹ، ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے خاندان کے خلاف ’شہری تحفظ مارچ‘ کرنے جارہے تھے۔
آج جاری ہونے والے ڈاکٹر عمار جان کے وارنٹ گرفتاری میں لکھا گیا ہے کہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا تھا تاہم کیس کی تفتیش کے لئے ڈاکٹر عمار جان کو بلایا گیا مگر وہ حاضر نہیں ہوئے جس کی بناء پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے ہیں۔
https://twitter.com/Haqooq_e_Khalq/status/1358776195626782723
ڈاکٹر عمار جان کے اہل خانہ کے مطابق انہیں کسی قسم کی تفتیش کے لئے نہیں بلایا گیا اور نہ ہی کسی عدالت میں پیش ہونے کے لئے انہیں کبھی کوئی عدالتی احکامات موصول ہوئے۔
حقوق خلق موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا ہے اگر عمار جان کو کوئی سمن موصول ہوتا تو وہ ضرور پیش ہوتے۔
ڈاکٹر عمار جان کی اہلیہ ٹیبی سپنس نے کہا ہے کہ یہ ایک مستقل طرز عمل بن چکا ہے۔ ابھی ہم ڈی سی لاہور کی جانب سے جاری کئے گئے گرفتاری کے نوٹس کی تاریخیں بھگت رہے ہیں ایسے میں ایک پرانا کیس نکال لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ معزز ججز اس دفعہ کیس لٹکانے کی بجائے اسکا فیصلہ سنا دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈی سی لاہور کی جانب سے ڈاکٹر عمار کو ’خطرے کی علامت’ قرار دیا گیا، ہم اس کیس میں پیش ہوئے تاہم پراسیکیوشن نے ابھی تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا الٹا وہ ہر پیشی پر ثبوت ڈھونڈنے کی مزید مہلت مانگ لیتے ہیں۔
https://twitter.com/TabbySpence8/status/1358779387018174469