تفصیلات کے مطابق مذکورہ فیصلہ گزشتہ دنوں ہونے والے پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا جس میں سینیٹر سعید احمد ہاشمی، چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد اور بی اے پی کے دیگر سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی نے شرکت کی۔
رات گئے تک جاری رہنے والے اجلاس میں پارٹی کے اندرونی امور کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت میں وفاقی حکومت کے ساتھ مستقبل کے تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں مشاہدہ کیا گیا کہ یقین دہانی کے باوجود بھی وفاقی کابینہ میں بی اے پی کے حصے میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
انگریزی اخبار ڈان کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر پارٹی کے رہنماؤں اور پارلیمنٹیرینز نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرنے پر وفاقی حکومت کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا۔
اجلاس میں یہ مشاہدہ بھی کیا گیا کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت وجود میں آئی ہے، بی اے پی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی وسیع تر غیر مشروط حمایت کی ہے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے پارٹی کو اسلام آباد میں پورا حصہ نہیں دیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ قومی اسمبلی میں بی اے پی کے 5 اور سینیٹ میں 12 اراکین موجود ہیں، لیکن انہیں صرف ایک وزارت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ بی اے پی کی رکن قومی اسمبلی زبیدہ جلال کو وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار کا قلمدان دیا گیا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی یہ سوچ بلوچستان کے لوگوں کی احساس محرومی میں اضافہ کر رہی ہے۔
اس موقع پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے دوران ملاقات میں یہ مسئلہ اٹھائیں گے۔
ایک سینئر بی اے پی رہنما نے ڈان کو بتایا کہ اگر وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب موصول نہ ہوا تو وہ حکومت کی حمایت جاری نہ رکھنے پر غور کریں گے۔