تفصیلات کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی سال 2019 کے دوران ملک میں سب سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر سامنے آئے۔ ٹی ٹی پی نے مختلف مقامات پر 82 اور بی ایل اے نے 27 حملے کیے، جن میں سے بعض کے انتہائی سخت اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم اِس سال داعش کی جانب سے ہونے والی شدت پسندانہ کاروائیوں میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی۔
گذشتہ برس پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں 13 فیصد کمی آئی۔ 4 خودکش حملوں سمیت مجموعی طور پہ 229 حملے ہوئے جن میں مرنے والوں کی کل تعداد 357 تھی، اموات کی یہ شرح 2018 کے مقابلے میں 40 فیصد کم ہے، جبکہ ان حملوں میں 729 افراد زخمی ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان، اس سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت حزب الاحرار اور ان جیسے دیگر نام نہاد مذہبی شدت پسند گروہوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں 158 تھیں جو 239 لوگوں کی اموات کا باعث بنیں۔
قوم پرست باغی گروہوں جن میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ ہیں، نے 57 حملے کیے جن کی وجہ سے 80 افراد جاں بحق ہوئے۔
دریں اثنا دہشت گردی کے 14 واقعات ایسے پیش آئے جو فرقہ وارانہ پس منظر کے تھے اِن میں مرنے والوں کی تعداد 38 تھی۔
یہ اعداد و شمار پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کی 2019 کی سالانہ سیکیورٹی رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔
جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پہ مرنے والے 357 افراد میں سے 164 عام شہری اور 163 سیکیورٹی و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تھے جبکہ ان میں سے 30 عسکریت پسند شامل ہیں۔
سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو پہنچنے والا جانی نقصان غیر معمولی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ 118 حملوں کا نشانہ یہی تھے۔ یعنی کہ پورے ملک میں ہونے والی مجموعی دہشت گردی کی کاروائیوں میں سے 52 فیصد کا شکار سیکیورٹی فورسز و قانون نافذ کرنے والے ادارے تھے۔
سال 2019 کی کل شدت پسندانہ کارروائیوں میں سے 91 فیصد سے زائد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں کی گئیں۔
خیبرپختونخوا میں 125 حملے ہوئے جن میں 145 افراد کا جانی نقصان ہوا اور 249 لوگ زخمی ہوئے۔
شمالی وزیرستان عسکریت پسندوں کے اہم مرکز کی حیثیت سے سامنے آیا، یہ ملک کا واحد ضلع ہے جو ایک سال میں 50 سے زائد حملوں کا نشانہ بنا۔
دہشت گردی کی کاروائیوں کے تناظر میں 2019 کے دوران صوبہ بلوچستان ملک میں سب سے زیادہ متأثر ہونے والا علاقہ رہا۔ وہاں اس عرصے میں 171 افراد جاں بحق ہوئے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 436 تھی۔ صوبے میں مختلف اوقات میں 84 واقعات سامنے آئے تھے۔
گذشتہ برس سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مختلف آپریشنز اور ان سے جھڑپوں و تصادم میں 113 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے تھے۔ 2018 میں ایسی نوع کی کاروائیوں کے دوران 105 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے تھے۔
پورے ملک میں مختلف سطح پر کیے گئے سرچ آپریشنز میں دہشت گردوں اور مسلح شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 231 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ 2018 کے مقابلے میں 2 فیصد کے معمولی فرق کے ساتھ گذشتہ برس سرحد پار سے پاکستان میں 118 حملوں کے واقعات سامنے آئے۔
سرحد پار حملوں میں 91 پاکستانی جانوں کا نقصان ہوا جن میں سے 61 عام شہری تھے، 29 آرمی کے اہلکار جبکہ ایک کا تعلق رینجرز سے تھا۔
رپورٹ میں سیکیورٹی سے متعلقہ بعض اہم چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور چند سفارشات بھی پیش کی گئیں جن میں سے بعض کا خلاصہ درج ذیل ہے:
حکومتِ پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دہشتگردی کی مالی معاونت پر قابو پانے کا مسئلہ ابھی تک ایک اہم چینلنج کے طور پہ برقرار ہے۔ محض ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی مجبوری میں وقتی حکمت عملیوں اور تراکیب کے استعمال کی بجائے پاکستان کو مستحکم ادارہ جاتی حیثیت میں مالی معاونت کی روک تھام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کا چیلنج کئی طرح کی مشکلات رکھتا ہے، کالعدم مذہبی تنظیموں کے ارکان کی بنیادپرست ذہنیت کی تحلیل کا معاملہ بھی کافی پیچیدگی کا حامل بن رہا ہے۔ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں اور ان کے خیراتی اداروں کے ممبران میں بڑھتی ہوئی مایوسی کے تناظر میں بھی ایسے اقدامات کی حاجت ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے خلاف نئی مہم کا آغار کر رکھا ہے۔
خیبرپختونخوا کے سیکیورٹی چیلنج کے حوالے سے کمزور ریاستی اقدامات کا سبب جزوی طور پہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے عمل کی سست روی سے منسلک تھا۔ اس کی وجوہات میں بیوروکریٹک، سیاسی اور قانونی مشکلات ہیں جنہیں فوری طور پہ دور کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچ شورش سے نبردآزما ہونے کے لیے حکومت جلدازجلد ایک وسیع منصوبہ تشکیل دے جس کے ذریعے باغیوں کے قومی دھارے میں انضمام کو ممکن بنایا جاسکے۔ بلوچ نوجوانوں میں یہ احساس تقویت اختیار کر رہا ہے کہ تشدد سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، ریاست کو بھی اسی رُخ میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک تیزرفتار میکنزم کی تشکیل صوبے میں اعتماد کی فضا کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ پاکستان میں مذہبی عدم رواداری کی اپنی مخصوص حرکیات ہیں تاہم حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ پر فعال بڑے انتہاپسند گروہوں کے ساتھ روابط کے سبب اس کی شدت و حجم میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک معتدل تعلیمی نظم کے فروغ سے اس کا سدباب کرے، علاوہ ازیں انٹرنیٹ، میڈیا اور تعلیمی درسگاہوں میں روادار و ترقی پسند بیانیوں کی تقویت کے لیے کام کیا جائے۔
نیشنل ایکشن پلان(NAP) کو ایک فعال و مربوط منصوبے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے، جس کے واضح اہداف ہوں، اس میں نگرانی کا جامع طریقہ کار وضع کیا جائے اور اسے متواتر جائزے و نظرثانی کے عمل سے گزارا جاتا رہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو خطرات کی بدلتی ہوئی نوعیت کے تناظر میں تبدیل ہوتے رہنے چاہیے اور اس کی ایک فعال و مؤثر پالیسی ہونی چاہیے تھی۔
حکومت نے حال ہی میں مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں ریگولرائز کرنے کے حوالے سے بعض اقدامات اٹھائے ہیں، تاہم یہ محدود اقدامات مدارس کے مالی امور کی دیکھ بھال، تعلیمی نظم، نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ بیانیوں اور بنیادپرست عناصر کے اس حلقے میں رسوخ جیسے مسائل کے حل میں ایک باضابطہ نگرانی کے بندوبست کا متبادل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ایسے باضابطہ نگرانی کے بندوبست صوبوں یا اضلاع کی سطح پر قائم کیے جاسکتے ہیں جن میں تعلیمی محکمہ جات، مذہبی علما، سول سوسائٹی اور والدین کی نمائندگی ہونی چاہیے۔