’ایران میں عوام عراق میں امریکی بیس پر حملے سے خوش ہیں‘: تہران میں موجود پاکستانی طلبہ

04:23 PM, 8 Jan, 2020

سیّدہ ثنا بتول
ایران نے عراق میں موجود امریکہ کہ دو فوجی اڈوں پر کل رات عین اس وقت درجنوں میزائلوں سے حملہ کیا جب جمعہ کو امریکہ نے قاسم سلیمانی، القدس کمانڈر کو ڈرون سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں قاسم سلیمانی اور الحشد بریگیڈ کے ملٹری کمانڈر ابو مھدی المہندس کی شہادت واقع ہوئی۔

ایران کی امریکہ کے خلاف اس جوابی کارروائی کے بعد ایران میں مقیم پاکستانیوں کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔

’ہمارے اردگرد لوگوں میں ایک خاص قسم کا احساس برتری اور مسرت کی کیفیت ہے۔ لوگ جو کل تک لیفٹننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی المناک شہادت پر غم و غصے کی کیفیت میں تھے اور انتقام کے خواہاں تھے، اس حملے کے بعد کسی حد تک مطمئن نظر آرہے ہیں‘، ایران میں مقیم پاکستانی طالبعلم ابن الحسن نے نیادور سے بات کرتے ہوئے کہا۔



ان کے مشاہدات کے مطابق لوگوں کو سلیمانی کی شہادت کے بعد سے یقین تو تھا کہ ایران جوابی کارروائی کرے گا۔ ’لوگ اپنی قیادت کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے فیصلوں کی حمایت کر رہے تھے۔ اس حملے کے بعد لوگوں کا قیادت پر یقین اور اعتماد بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران میں سیاسی اختلافات کم ہوتے نظر آئے ہیں۔ اکثر لوگوں کو معاشی اور سیاسی مسائل پر گفتگو کرتے سنا ہے لیکن شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد سے لوگوں کی گفتگو سے ایسے محسوس ہوا ہے کہ ایرانی قوم میں موجود سیاسی، اور قومی اختلافات کی شدت میں کمی اور ایک خاص قسم کی یکجہتی وجود میں آئی ہے جب کہ دوسری طرف معاشی مسائل بھی ثانوی موضوع بن گیا ہے۔ ’قاسم سلیمانی کی شہادت اور اس انتقامی کارروائی سے ایرانی معاشرے میں خاص قسم کی قومی یکجہتی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بلا استثنا لوگ انتقام کی بات کر رہے ہیں اور اب اس حملے کے بعد حکومت کے اس اقدام کی مکمل حمایت دیکھنے کو مل رہی ہے‘، ابن الحسن نے بتایا۔

ایران میں آج کی جوابی کارروائی کہ بعد لوگوں کو ایک دوسرے کو ان جملوں کے ساتھ مبارک باد دیتے بھی دیکھا گیا ہے کہ: اِنَّهُ مِنَ سُلَیْمَان و انه بسم الله الرحمن الرحیم

البتہ سوال یہ ہے کہ ان مشکل حالات میں اور جنگ کی صورت میں ایران میں مقیم پاکستانیوں کا کیا رد عمل ہوگا۔ اس کے جواب میں ابن الحسن نے کہا کہ اگر خطے میں موجودہ صورتحال کسی جنگ پر منتج ہوتی ہے تو ہمارا رد عمل وہی ہوگا جو ایک ظالم و جابر اور سامراجی طاقت کے مقابلے میں مزاحمت کرنے والوں کا ہونا چاہیے۔ ’ہم مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ مزاحمت خطے کی عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور امریکہ ہزاروں میل دور سے آ کر خطے کو تباہی و بربادی سے دوچار کر رہا ہے‘۔

اس اثنا میں سوشل میڈیا پر لوگوں کے ملے جلے تاثرات دیکھنے میں آئے۔ جن میں کچھ عراقی اکاؤنٹ عراقی زمین کو امریکہ اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ کے لئے استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔ جب کہ الحشد اور ان کے کارکنان اور پیروکاروں نے ایران کے اس حملے کی بھرپور حمایت کی۔

ایران میں مقیم پاراچنار سے تعلق رکھنے والے ایک اور 25 سالہ پاکستانی طالب علم اشتیاق حسین کا کہنا ہے کہ آج رات کے حملوں نے جہاں پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مائل کی ہے اسی طرح ہمارے فیملی والے بھی پریشان تھے اور صبح ہی صبح کال کرتے رہے۔ لیکن ایران میں ماحول نہایت پرامن ہے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو دکھ اور غم سردار سلیمانی کے شہادت نے طاری کیا تھا وہ کل رات کہ حملے نے خوشی میں بدل دیا ہے۔

انہوں نے نیا دور کو یہ بھی بتایا کہ اس وقت جہاں پوری دنیا میں جنگ جہانی کی خبریں عروج پر ہیں لیکن تہران میں پراطمینان ماحول ہے۔ ’’صبح جب بھی ایرانیوں سے ملا ہوں سارے پُر اطمینان تھے اور مبارک باد دے رہے تھے‘‘، انہوں نے کہا۔

سوشل میڈیا پر جنگ کی ہائپ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تہران میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ سرکاری دفاتر، سکول اور یونیورسٹیاں کھلی ہیں۔ ’’میں خود ابھی تہران یونیورسٹی میں ہوں اور ہرچیز معمول کے مطابق ہے‘‘۔

ایران میں مقیم بیشتر پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ امریکہ غیر قانونی طور پر اس خطے میں موجود ہے اور زبردستی اپنے وجود کو قانونی تحفظ فراہم کیے ہوئے ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ شہدائے بغداد کے جنازوں میں کروڑوں افراد کی شرکت اور عوامی احتجاجی مظاہرے اسی بات کی دلیل ہیں کہ امریکہ خطے میں بدترین نفرت کا شکار ہے، اسے یہ خطہ ترک کرنے اور خطے کے امور اس خطے کے لوگوں کے سپرد کرنے ہوں گے جو اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی اور منشا سے کریں اور یہی لیفٹننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا حقیقی انتقام ہوگا۔
مزیدخبریں