پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ اگر امریکی انخلا کے بعد طالبان کی حکومت کو امریکہ اس شرط پر تسلیم کرلیتا ہے کہ طالبان پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو اہمیت دے گا اور چین کے ساتھ سی پیک میں شریک نہیں ہوگا تو پاکستان کا طالبان حکومت تسلیم کرنے یا نہ کرنےکی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور طالبان خطے میں امریکی نمائندے بن کر چین اور پاکستان کے لئے مستقل خطرہ بن جائیں گے اور اگر امریکہ طالبان کو تسلیم نہیں کرتا لیکن غیراعلانیہ طالبان کی حمایت اسی شرط پر کرتا ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ اس صورت میں پاکستان کے لئے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا بہت مشکل ہوگا اور اگر پاکستان اور چین طالبان کو سی پیک میں شامل کرکے بھارت کی افغانستان سے بے دخلی کی شرط پر تسلیم کرتے ہیں تو طالبان کو بھارت اور امریکہ یا پاکستان اور چین میں سے کسی ایک گروپ کو جوائن کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستان کوبھی امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
پاکستان کے سیاسی حالات و واقعات کا درست ادراک کرنے کے لئے تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔ جب نواز شریف نے یمن جنگ میں تعاون سے انکار کرکے سعودی عرب کو ناراض کیا اور سی پیک پر تیزی سے ہوتی پیشرفت سے امریکہ بھی خفا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ پنامہ اسکینڈل آگیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں رجیم چینج کا ماحول بنا۔ پنامہ کے ذریعے آنے والے پیغام کو اندرونی حلقے بخوبی سمجھ رہے تھے۔ لہذا انہوں بھی اپنے حساب برابر کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں کو سسٹم سے آوٹ کرنے کا اس بہتر موقع شاید دوبارہ نہ ملتا اس لئے اپنی پرانی خواہش کی تکمیل کے لئے ایک آخری کوشش کی گئی۔ پیش نظر شاید یہ بات تھی کہ ٹرمپ دس سال تک امریکہ کا حکمران رہے گا کیونکہ وہاں کی روایت یہ رہی ہے کہ ایک صدر کو مسلسل دو مدت ملتی ہیں جیسے کہ صدر بش اور صدر اوبامہ نے اپنی دو دو باریاں مکمل کیں۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ٹرمپ کا تعلق امریکہ کی ریپبلکن جماعت سے ہے یہ وہ جماعت ہے جو افغانستان میں روس کے خلاف ہونے والی جنگ کے وقت امریکہ میں برسر اقتدار تھی۔ اس وقت یہاں ضیاالحق کا دور تھا اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ دونوں ممالک مل کر اس وقت روس کے خلاف طالبان کو سپورٹ کررہے تھے اس کے بعد مشرف کے دور میں بھی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے جارج بش امریکہ کے صدر تھے اس عرصے میں بھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ممالک مل کر افغانستان میں طالبان اور القائدہ کے خلاف جنگ میں اتحادی رہے یہ تاریخ بیان کرنے کا مقصد عام آدمی کو یہ سمجھانا ہے کہ ریپبلکن جماعت کے صدر کو پاکستان میں فوجی حکمرانی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اس بات کو ایک حد پسند کرتے ہیں کہ پاکستان میں فوجی حکمرانی ہو تاکہ ہمیں ایک ہی شخص سے بات کرنی پڑے اور معاملات طے کرنے میں آسانی ہو۔
پاکستانی سیاسی منظر نامے میں مسئلہ تب پیدا ہوا جب امریکہ میں ریپبلکن جماعت کے صدر ٹرمپ برسر اقتدار آگئے اور پاکستان میں جمہوریت اپنے عروج پرتھی پیپلزپارٹی اپنے پانچ سال مکمل کرچکی تھی۔ اوراب نوازشریف وزیراعظم بن چکے تھے نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی چین سے قربتیں بڑھالیں اور یمن کے معاملے پر سعودی عرب کو بھی ناراض کردیا۔ سعودی عرب میں بھی چونکے بادشاہت ہے لہزا ریپبلکن صدور کے ساتھ ان کے تعلقات بھی بہت اچھے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے بعد بھی ٹرمپ پھسپھسے بیانات دیتے رہے لیکن ٹرمپ کے جانے کے بعد اب سعودی عرب نے اپنی پہلے سےجاری ماڈرنائیزیشن کی پالیسی مزید تیز کردی ہے۔ حال ہی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کئ قانون عجلت میں پاس کئے تاکہ جوبائیڈن کو زیادہ سے زیادہ مثبت امیج پیش کیا جاسکے۔
امریکہ میں ریپبلکن کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان میں غیرجمہوری قوتوں کے لئے خواہشات کی تکمیل آسان ہوگئ اور پاکستان میں ایسی ہائبرڈ حکومت قائم ہوئی جس میں میدان کے اصل کھلاڑیوں کے لئے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا قدرے آسان تھا لیکن بدقسمتی سے جب کھیل شروع ہونے لگا تو امریکہ میں غیر متوقع طور پر رجیم چینج ہوگئی اور بائیڈن اقتدار میں آگئے جن کاتعلق امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ڈیموکریٹ تو ظاہر سی بات ہے۔ اس جماعت کے صدر کی انسانی حقوق اور جمہوریت سے متعلق پالیسیاں بھی ریپبلکن سے خاصی مختلف اور مثبت ہیں۔ اپوزیشن کی عمران کے خلاف تحریک اور تنقید کا داخلی سطح پر تو کچھ خاص اثر نہ ہوا لیکن جوبائیڈن کی عمران خان کی حکومت کے لئے انتہا درجے کی بے رخی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت بھی عمران خان کو سیلیکٹڈ ہی تصور کرتی ہے۔ حال ہی میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افغانستان سے انخلا کے متعلق پاکستان سے روابط کے بارے میں دیئے گئے بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی مقتدرہ سے تو رابطے میں تھا لیکن وزیراعظم عمران خان کو نہ تو صدر جوبائیڈن نے خود فون کیا اور نہ ہی عمران خان کو اس زحمت کا موقع دیا جس کے بعد عمران خان کے پاس بہتر آپشن یہی تھا کہ وہ ببانگ دہل امریکہ مخالف اسٹینڈ لے کر کم از کم عوام میں اپنی مقبولیت میں اتنا اضافہ کرلیں کہ ان کو غیراہم کرکے منظر سے ہٹانا نہ مقتدرہ کے لئے آسان ہو اور نہ ہی اپوزیشن کے لئے۔ یہاں میں عمران خان کو داد دونگا کم از کم انہوں نے یہاں اپنا کارڈ زبردست کھیلا۔ اب اگر عمران خان کو ہٹایا گیا تو وہ سیدھا سادہ یہ کہہ دینگے کہ مجھے امریکہ نے نکلوایا اور یہ نعرہ مارکیٹ میں بہت بکے گا یہ بات عمران خان بہت اچھی طرح جانتے بھی ہیں۔
اگر آپ کو یاد ہو وہ وقت جب یمن جنگ میں غیرجانبدار رہنے کے اعلان کے بعد بحیثیت وزیراعظم نواز شریف نے مئ 2017 میں سعودی سمٹ میں شرکت کی جہاں انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا اور امریکی صدر ٹرمپ سے بھی ان کی ملاقات نہ ہوسکی امریکہ اور سعودی عرب کی یہ یکساں بے رخی محض اتفاقیہ نہیں لگتی۔ اس بے رخی نے نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی میں اہم کردار ادا کیا اس بے رخی نے مقتدرہ کو جواز فراہم کیا کہ نواز شریف امریکہ اور جین سے تعلقات میں توازن قائم نہیں رکھ پا رہے جو اس وقت مقتدرہ کی نظر میں ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں تھا اب اگر یہی فارمولا موجودہ حالات پر بھی لگایا جائے تو سعودی عرب سے بھی عمران خان کی حکومت تعلقات خراب کرچکی ہے۔ گو کہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے اپنی کوششوں سے کسی حد تک دوبارہ تعلقات بحال کروائے ہیں لیکن اب وہ گرم جوشی نہیں رہی۔ سعودی عرب کی عمران خان کی حکومت میں وجہ دلچسپی اب صرف یہی ہے کہ امریکہ کا ڈیموکریٹ صدر جتنا ناپسند پاکستان کی ہائیبرڈ سیلیکٹڈ حکومت کو کرتا ہے اتنا ہی ناپسند سعودی بادشاہت کو بھی کرتا ہے سعودی حکومت کو شاید اس بات کا خوف بھی ہے کہ جمال خشگوگی کیس پر ٹرمپ کے مقابلے میں جوبائیڈن زیادہ دلچسپی دکھا سکتے ہیں۔
موجودہ حالات میں پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ اس وقت یہاں ایسی حکومت ہو جو امریکہ چین اور سعودی عرب سے تعلقات میں توازن قائم کرسکے جب تک چین دنیا کی سپر باور نہیں بن جاتا اس وقت تک پاکستان کو ڈبل گیم ہی کرنا ہوگی اور حالات و واقعات اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت باوجود اپنی بھرپور کوششوں کے خارجہ سطح پر مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے کیونکہ اس حکومت میں مینوفیکچرنگ فالٹ ہے جسے پالیسیاں تبدیل کرکے دور نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا پاکستان میں رجیم چینج ناگزیر ہے اور متبادل کے طور پر مقتدرہ کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ ن لیگ کو پنجاب میں اور پیپلزپارٹی کو وفاق میں مشروط و مخلوط و مجبور حکومت مل سکتی ہے۔ بلاگ کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی وجوہات اور تفصیل میں جانا مناسب نہیں لیکن رجیم چینج ناگزیر ہے میری رائے میں یہی نوشتہ دیوار ہے جتنی جلدی پڑھ کر عمل کرلیا جائے ملک کے لئے بہتر ہوگا۔