خطے میں بدلتے حالات اور آنے والی نسلوں کی بقاء کا سوال

خطے میں بدلتے حالات اور آنے والی نسلوں کی بقاء کا سوال
خطے کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ،امریکی فوج کا انخلا افغانستان پر اثرات مرتب کرے گا ہی مگر پورا خطہ بھی ان اثرات سے محفوظ نہ رہ پائے گا۔ خصوصی طور پر پختون خطہ جو پہلے ہی کی دہائیوں سے جنگ کے اثرات کے زیر اثر بے بہا نقصان اٹھا چکا ہے اور مزید کسی نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ایک بار پھر جو خطرات منڈلا رہے ہیں اس کا مستقل حل اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حل طلب مسائل جو امریکی فوج کے انخلا سے پہلے حل چاہتے ہیں اگر ان کو سلجھائے بغیر چھوڑ دیا گیا تو خدا نخواستہ ایک نئی جنگ چڑ جائے گی ۔اس لئے خطے میں امن کے قیام کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کی غیر جانبدار کوششیں از حد ضروری ہیں۔

خانہ جنگی کی وجہ سے جو نقصان ہم برداشت کر چکے ہیں ایک بار پھر اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مزید یہ سارا خطہ انتہا پسندی کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔ اس انتہا پسندی کی بھاری قیمت غربت ،بھوک ،یتیمی اور پسماندگی کی شکل میں  بھگت چکے ہیں ۔امید ہی کی جاسکتی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز حل طلب مسائل پر اکھٹے ہو کر حل نکالیں گے اور بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں ہوگی ۔

کئی سال پہلے مجاہدین اور آج طالبان کے اثر نے خون ریزی اور خانہ جنگی کی جو فضا قائم کی اسکا نتیجہ کئی نسلوں نے بھگتا اور آج بھی بھگت رہے ہیں۔ پڑوسی مما لک کو اس نازک ترین دور میں اہم اور بر وقت فیصلے لینے ہونگے جو خطے کے دیر پا امن کے لیے ضروری ہے ورنہ ایک مرتبہ پھر حالات بگڑ سکتے ہیں۔ ڈائیلاگ اگر ہو تو نیک نیتی کی بنا پر ہو جس کے خوش آئند اثرات آنے والے وقت میں افغانستان پر ہوں بلکہ وہ خطے کی ترقی کے لیے اہم سنگ میل بھی ثابت ہوں۔ یہی وقت ہے جب ہم ایک اور نئی جنگ خطے میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ جںگوں سے چور یہ خطہ اب مزید بارود کا بوجھ نہیں سہہ سکتا ۔آنے والی نسلیں اب مزید انتہا پسندی کی بھینٹ نہیں چڑھنی چاہیئں۔

انتہا پسند عناصر (کسی بھی روپ میں) اگر امن کے لیے خطرہ ہوں تو ان کی مخالفت سب پر فرض ہے کیونکہ یہ آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ حالات اگر پھر خدانخواستہ بگڑ گئے تو اس دور جدید کی تباہ کن جنگوں کے اثرات بہت خطرناک ہونگے ۔اس لیے امریکہ کو اپنی فوج کے افغانستان سے نکالنے سے پہلے کی اہم مسائل کو حل کر نا پڑے گا۔ آج تمام ہمسایہ ممالک کو بھی ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا ،ہمیں افغان قوم اور اسکی منتخب حکومت کا ساتھ دینا ہوگا ،جس جنگ کے دہانے پر خطہ کھڑا ہے اسکو روکنے کے لیے اہم اور سنجیدہ فیصلے از حد ضروری ہیں۔ مزید خانہ جنگی اور خون خرابہ یہ خطہ بر داشت نہیں کر سکتا اسی کی دہائی کے وہ کرب ناک حالات جب ہزاروں پناہ گزین وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا پھر  پچھلے بیس سالوں میں جن بد ترین حالات سے خطہ گزرا اور انتہا پسندی کی سوچ نے جس  طرح سے ہر طبقے کو متاثر کیا اب مزید یہ سب نہیں  ہونا چاہیے ۔تاریخ کے اس اہم موڑ پر اج جو فیصلے ہونگے آنے والے وقت میں اس کے اثرات سے پورے خطے کے حالات مشروط ہیں ۔بر وقت اور درست سمت میں فیصلے آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے بے حد اہم ہیں ،دیکھتے ہیں آنے والے چند دن ،چند مہینے حالات کو کس طرف لے جاتے ہیں امید کرتے ہیں کہ خطہ مزید انتہا پسندی کے بھینٹ نہ چڑھے۔