چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اسلام آباد ہائیکورٹ کا وارنٹ غیر قانونی قرار دیا تھا اور انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست سے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جسے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ کو 19کروڑ پاؤنڈ القادر ٹرسٹ کرپشن کیس کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں تھے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتوں کے تقدس اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ عدالتوں سے اس لیے رجوع کرتے ہیں تاکہ محفوظ ماحول میسر آئے۔
تحریری فیصلے میں لکھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ بائیو میٹرک کے وقت رینجرز نے ڈائری برانچ میں زبردستی گھس کر چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا۔ رینجرز نے ہائیکورٹ کے احاطے میں شیشے توڑے، وکلا اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 9 مئی کی گرفتاری کے واقعے کا نوٹس لیا۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتاری کے طریقے کو غلط لیکن گرفتاری کو قانونی قرار دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالتی حکم پر ساڑھے چار بجے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے 9 مئی کے واقعات پر بیان کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر آنے کی اجازت دی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری کے بعد کے واقعات سے لا علمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے یقین دہانی کرائی اور کہا کبھی اپنے چاہنے والوں کو تشدد پر نہیں اکسایا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری پر مایوسی کا اظہار کیا۔ نیب پراسیکیوٹر اور اٹارنی جنرل کو سننے کے فوری بعد مختصر حکم جاری کیا گیا۔ مختصر حکم میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
فیصلے میں لکھا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پولیس گیسٹ ہاؤس میں نامزد لوگوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر کے انصاف کے حصول کے بنیادی حق کو پامال کیا گیا۔ طے شدہ اصول ہے کہ عدالتی وقار اور تقدس کی پاسداری سب پر لازم ہے۔ لوگ اس یقین دہانی پر عدالتوں آتے ہیں کہ آزادانہ ماحول اور شفاف انصاف ملے گا۔
فیصلے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو درست کہنا بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ گرفتاری کو درست کہنا پولیس کو عدالتی احاطے سے ملزمان پکڑنے کی شکارگاہ بنانے کی دعوت جیسا ہوتا۔ سابق وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو 9 مئی واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں؟ سابق وزیراعظم نے جواب دیا وہ گرفتار تھا۔ معلوم نہیں کہ ملک میں کیا ہوا؟ چیئرمین پی ٹی آئی نے یقین دہانی کرائی کہ کبھی کارکنوں کو تشدد پرنہیں اکسایا۔ وہ ملک میں امن چاہتے ہیں۔
اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے وقت پلٹنے کا فیصلہ کیا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو اسلام آباد کورٹ کے سامنے پیش کرے تاکہ القادر ٹرسٹ کیس میں اس کی قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست کی سماعت ہائی کورٹ میں کی جائے۔
اس عدالت کا خیال تھا کہ صرف اس طرح کی کارروائی ہی پولیس حکام اور تفتیشی ایجنسیوں کو مستقبل میں ایسے طرز عمل سے باز رکھے گی جس سے عدالتوں کے وقار، تقدس اور تحفظ اور شہریوں کے بنیادی حق دونوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی وضاحت کی کہ عمران خان کو اگلی صبح ہائی کورٹ میں درخواست گزار کی محفوظ نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا گیا تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اسی طرح ہائی کورٹ کے سامنے اپنے قانونی دفاع کو آسان بنانے کے لیے، اس عدالت نے درخواست گزار کو پولیس کی حراست میں رہتے ہوئے۔ اس کی قانونی ٹیم کے ارکان سمیت 10 مہمانوں سے ملنے کی اجازت دی تھی۔