خیر فقیر صفت رشید مصباح پھر بھی مطمئن وہاں سے کوچ کر گیا۔ کہنے لگا کہ چلو چند ماہ میں درجن بھر لوگ ہی اگر کتابوں کے قاری بن گئے تو میں خسارے میں نہیں رہا۔ رشید مصباح بہت ہی صاحب علم اور وسیع المطالعہ انسان تھے۔ میں نے لاہور کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں میں بھی بہت کم لوگ دیکھے ہیں جن کا رشید مصباح کے ساتھ علم میں موازنہ کر سکوں۔ ان کی افسانوں کی تین کتابیں؛ برے آدمی کا سچ، سوچ کی داشتہ، رشید مصباح کے سارے افسانے، شائع ہو چکی ہیں۔ مضامین کی کتاب؛ تضادات بھی شائع ہوئی ہے۔ یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے کہ اس کتاب میں ایک مضمون میری افسانوں کی دوسری کتاب 'امرتسر 30 کلوگرام' پر بھی تھا۔ یہ میری کتاب کا مقدمہ تھا جو رشید مصباح صاحب نے لکھا تھا۔
لاہور شہر میں ان کے لاتعداد شاگرد تھے لیکن فکشن لکھنے والوں کی وہ خاص طور پر بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ چونکہ وہ خود بنیادی طور پر فکشن کے آدمی تھے۔ راجندر سنگھ بیدی کے بہت بڑے مداح تھے۔ کہتے تھے ناقدین نے اس پر اتنا کام نہیں کیا جس قدر کرنا چاہئیے تھا۔ میں لاہور میں اپنے ہم عصر فکشن لکھنے والوں عبدالوحید، آدم شیر، انجم سومرو، ان سب کو دیکھتا ہوں۔ سب رشید مصباح کے گن گاتے تھے کیونکہ ہم سب رشید مصباح کے شاگرد تھے۔ پھر ان کے ایک شاگرد فیاض ملک نے ایک بہت ہی شاندار کتاب ' رشید مصباح؛ فن اور شخصیت' بھی لکھی تھی جو ان کی زندگی اور ان کے فکشن کے حوالے سے تھی۔
رشید مصباح بہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ انہوں نے وکالت کی، صحافت کی، لاء کالج چلایا، اس کے علاوہ مختلف کالجوں میں پڑھاتے بھی رہے۔ میں نے ان کے ساتھ ایک پندرہ روزہ 'سابیان' میں بھی کام کیا جس کا دفتر میو ہسپتال کے پاس گادھی ٹرسٹ کی عمارت میں تھا۔ ہم اکثر دوپہر کا کھانا اکٹھے گادھی ٹرسٹ کی عمارت سے جو سڑک ہال روڈ کی طرف جاتی تھی وہاں ایک ڈھابے میں کھاتے تھے۔ پندرہ روزہ سابیان میں رشید مصباح جہاں سیاسی موضوعات پر فیچرز اور کالمز لکھتے تھے وہاں اپنا ناول 'چندن بائی' بھی لکھ رہے تھے جس کی کافی اقساط شائع ہوئی تھیں۔ پھر اس جریدے کی بندش کے بعد مصباح صاحب باقی ناول پر کام کرتے رہے۔ میری ان سے آخری ملاقاتوں تک ابھی ناول پر کام جاری تھا۔ افسوس ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ ناول مکمل نہ کر سکے۔
رشید مصباح بائیں بازو کی سیاست کے بہت بڑے داعی تھے۔ میرا دعویٰ ہے داس کیپیٹل، مارکس ازم، لینن اور فریڈک اینگلز کو جس قدر انہوں نے پڑھا لاہور میں کسی بھی بائیں بازو کے دانشور نے نہیں پڑھا ہو گا، سوائے عابد حسن منٹو صاحب کے۔ میری رشید مصباح سے پاک ٹی ہاؤس میں ایک طویل بحث ہوئی تھی۔ میں ان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیاں آپ کے ادبی کام پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ آپ یہ سیاسی جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر صرف ادبی کام کریں مگر انہوں نے مدلل جواب دے کر مجھے خاموش کروا دیا تھا۔
میری زندگی کا سب سے تلخ واقعہ تب ہوا جب میں انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کا جنرل سیکرٹری تھا۔ تب رشید مصباح اور سعید اختر ابراہیم کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے باعث رشید مصباح کی انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کی رکنیت معطل کرنا پڑی مگر اس کا مداوا میں نے یوں کیا کہ جب میں لاہور پریس کلب کی ادبی کمیٹی کا رکن بنا تو لاہور پریس کلب میں رشید مصباح کے اعزاز میں ایک شام کا انعقاد کیا۔
حرف آخر صرف یہ کہنا ہے کہ ہم ترقی پسند مصنفین نے رشید مصباح کی قدر نہیں کی۔ تحریک میں موجود کچھ بونے رشید مصباح کے ادبی قدر کاٹھ سے خوفزدہ تھے۔