https://youtu.be/PcckderEjBI
https://youtu.be/PbLEZsndIjU
جونیجو حکومت کی برطرفی
29 مئی 1988 کو جنرل ضیا نے غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد پر قائم محمد خان جونیجو حکومت برطرف کر دی۔ اگست 1988ء میں ضیا کی ہلاکت کے بعد جونیجو صاحب نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ ان کی حکومت بحال کی جائے کیونکہ اسے غیر قانونی طریقے سے ہٹایا گیا تھا۔ اس اثنا میں فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے لاہور پریس کلب میں یہ بیان دیا کہ اگر سپریم کورٹ کے ججوں نے جونیجو حکومت کو بحال کیا تو اس فیصلے کے نتیجے میں ’پیدا ہونے والی صورت حال‘ کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ معاملہ بہر حال زیادہ آگے نہیں بڑھا اور عدالت نے تازہ انتخابات کا حکم دے دیا (اسلم بیگ صاحب کو سپریم کورٹ نے سنہ 1994 میں توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا تو انہوں نے عدالت میں جواب دیا کہ ’میں اس عدالت کے آگے جواب دہ نہیں ہوں‘)۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے قومی شناختی کارڈ ہونا لازم قرار دیا گیا، جو دراصل پیپلز پارٹی کو طاقت میں آنے سے روکنے کی کوشش تھی۔ بینظیر صاحبہ کے مطابق شناختی کارڈوں کو دھاندلی کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا اور لاہور ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا لیکن سپریم کورٹ نے شناختی کارڈوں کی حمایت میں فیصلہ دیا۔
پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی قبل از انتخابات
اسی طرح حسین حقانی صاحب کے زیر نگرانی نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے خلاف بدنامی کی مہم شروع کی گئی اور ان کی تصاویر کو مسخ کر کے پمفلٹ جہاز کے ذریعے بڑے شہروں پر گرائے گئے۔ پیپلز پارٹی کو اس کے روایتی انتخابی نشان یعنی تلوار سے محروم کر دیا گیا اور تیر کا نشان عطا کیا گیا۔
اپوزیشن میں جنرل حمید گل کا بنایا ’اسلامی جمہوی اتحاد‘ دراصل ذوالفقار علی بھٹو مخالف ’پاکستان قومی اتحاد‘ کا ایک نیا روپ تھا۔
https://youtu.be/qj989ES-fzk
https://youtu.be/I2ccrS0DViw
ان تمام اقدامات کے باوجود بینظیر صاحبہ کی جماعت وفاقی انتخابات میں کامیاب ٹھہری۔ ان انتخابات میں حیران کن طور پر 54 آزاد امیدوار قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہوئے (یا کروائے گئے)۔
https://youtu.be/HxPFGWQD1xU
اقتدار سے پہلے سمجھوتہ
ضیا دور کے ایک قانون کے مطابق صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ مقننہ کے کسی بھی رکن کو وزیر اعظم کےعہدے کے لئے نامزد کر سکتا ہے، البتہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا بھی ضروری ٹھہرایا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے 93 پر کامیابی حاصل کی جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 55 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اتحاد کے سربراہ نواز شریف نے انتخابات سے اگلے روز حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ اقتداری اونٹ کی کروٹ کا فیصلہ صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھ میں تھا۔
https://youtu.be/dRlrC9YzplA
https://youtu.be/8wCfmJPQRPg
غلام اسحاق خان سدا بہار حکومت میں
بالآخر صدر صاحب نے محترمہ بینظیر کی جماعت کو اس شرط پر اقتدار منتقل کیا کہ وہ صدارتی انتخابات میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دیں گے۔ صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی ارکان نے ایم آر ڈی (MRD) تحریک کے دوران اپنے حلیف نوابزادہ نصراللہ خان پر اسحاق خان کو فوقیت دی۔ غلام اسحاق خان پاکستان افسر شاہی کے نشیب وفراز سے گزر کر اقتدار کے ایوان تک پہنچے تھے۔ ایوب خان دور میں وہ واپڈا کے محکمے میں تعینات کیے گئے، بعدازاں انہیں وزارت مالیات اور بینک دولت پاکستان میں اعلیٰ درجے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ بقول وجاہت مسعود ’1950 کی دہائی میں جو کردار اسکندر مرزا کو ملا، 1980 کے عشرے میں اسی نوعیت کے کچھ نالے غلام اسحاق خان کے سپرد ہوئے تھے۔ رپورٹ پٹواری مفصل (لفِ ہذا) سے معلوم پڑتا ہے کہ یہ نالے بطریق احسن دم ہوئے۔ جن ملکوں میں عوامی تائید کے بغیر حکمرانی کا طور جڑ پکڑ لے، وہاں ایک نہ ایک ایسا کردار پیدا ہو جاتا ہے جسے سدا بہار سمجھا جاتا ہے۔ اقتدار جس روپ میں بھی رونمائی دے، یہ کسی خوشنما تِل کی صورت رخِ انور کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں۔ روس میں یہ اعزاز گریمکو کو حاصل تھا۔ پاکستان میں یہ منصب غلام اسحاق خان کو ملا۔'
حکومت کن شرائط پر ملی اور بچانے کے لئے کیا کیا جتن ہوئے
بینظیر صاحبہ کو پہلی حکومت کے دوران 'مقتدر حلقوں' کی جانب سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ دفاع اور خارجی معاملات، خاص طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام میں مداخلت نہ کی جائے، اور انہی شرائط پر اقتدار منتقل کیا گیا۔
اس دور حکومت میں پنجاب اور بلوچستان میں اپوزیشن کی جماعتیں برسر اقتدار تھیں اور ان حکومتوں کو برطرف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ پنجاب میں اپنی وزارت خطرے میں دیکھ کر نواز شریف صاحب اسمبلی کے آزاد نمائندوں اور اپنی جماعت کے چند افراد کو چھانگا مانگا لے گئے تھے اور ان سے وفاداری کاحلف لیا گیا تھا۔
نواز شریف 'پنجاب کا جی ایم سید'
وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بینظیر صاحبہ نےنواز شریف کو 'پنجاب کا جی ایم سید' قرار دیا۔ انہوں نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اپنی جماعت کے سیکرٹری جنرل، ٹکا خان کو صوبائی گورنر کا عہدہ عطا کیا۔
سنہ 1989 میں اندرون سندھ کے حالات بہت کشیدہ ہو چکے تھے اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی ایک وجہ جی ایم سید کی ’سندھو دیش‘ تحریک تھی۔ جی ایم سید کے پیرو کاروں نے سندھ کے مختلف مقامات پر ہنگامہ برپا کیا اور ایک موقعے پر سکھر ائیر پورٹ پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران ممتاز بھٹو کی سربراہی میں سرائیکی صوبے کی تحریک بھی شروع ہوئی۔ صوبہ سندھ میں امن وامان پر قابو پانے کے لئے فوج کی مداخلت ضروری ہو گئی اور وزیراعظم کے احکامات پر فوج نے صوبے میں آپریشن شروع کیا۔
ارکان اسمبلی سازشوں سے دور
اسمبلی میں واضح برتری نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی حکومت مسلسل خطروں کا شکار رہی۔ اسمبلی کی تشکیل کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وزیر اعظم صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کا شوشہ اٹھا۔ مرکز میں حکمران جماعت کی حلیف عوامی نیشنل پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔ قرارداد عدم اعتماد سے قبل اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کو محلاتی سازشوں سے دور کرنے کیلئے محترمہ نے فضائیہ کے طیاروں میں اپنے ایک سو (100) ارکان اسمبلی کو منگورہ، سوات، بھیج دیا۔ قرارداد عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی اور حکومت کو اس معرکے میں فتح حاصل ہوئی۔
https://youtu.be/khp6H1pEVlI
شہری سندھ قابو سے باہر
1990 میں صوبہ سندھ میں حالات نازک موڑ پر پہنچ چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے طلبہ ونگ اور مہاجر پارٹی کے کارکنان کے درمیان اغوا کنندگان کے تبادلے چل رہے تھے۔ بینظیرصاحبہ نے 1988 میں حکومت ملتے ہی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سینکڑوں سیاسی ارکان کو رہا کر دیا تھا۔ ان اسیران میں سب افراد بے قصور نہیں تھے اور ان کی رہائی کے باعث امن وامان کی صورت حال خراب ہوئی۔ وزیر اعظم نے فوج کو طلب کرنے سے اجتناب کیا کیونکہ وہ اپنے بنیادی حلقے میں فوج کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ مئی 1990 میں سندھ حکومت نے حیدرآباد میں کرفیو نافذ کر دیا۔ حیدر آباد قلعے سے خواتین اور مرد قرآن اٹھائے نکل پڑے۔ پولیس نے ان پر گولی چلا دی اور فسادات کے نتیجے میں ستر (70) افراد مارے گئے۔ پولیس کے مطابق ان افراد کے عقب میں بندوقوں والے لوگ موجود تھے جبکہ مہاجروں کے مطابق نہتی عورتوں پر گولی چلائی گئی۔ اس واقعے کے رد عمل کے طور پر کراچی میں بھی فساد پھیلا اور دو سو سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس موقع پر صدر نے فوج کو طلب کیا۔
https://youtu.be/4Yp0Q34dr0M
کرپشن کے الزامات
حکومتی سطح پر کرپشن بڑھ گئی اور کروڑوں روپے کے قرضے حکومتی وزرا اور ان کے رشتہ داروں کو نوازے گئے۔ بینظیر صاحبہ نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کو بےمحکمہ وزیر جبکہ اپنے سسر حاکم علی زرداری کو اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ سیاسی مخالفین کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا رواج بھی اسی دور میں شروع ہوا۔ شریف خاندان کی اتفاق فاونڈری کو نقصان پہنچانے کے لئے پاکستان ریلوے کو حکم دیا گیا کہ سکریپ کراچی سے لاہور نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس نقصان کے باعث اتفاق فاؤنڈری کو تین ہزار کے قریب ملازم فارغ کرنے پڑے۔ صدر غلام اسحاق خان نے حکومت بننے کے بیس ماہ بعد اس کو کرپشن، اقرباپروری، نااہلی،عدلیہ اور سینیٹ توہین کے ضمن میں آٹھویں ترمیم کے تحت برطرف کر دیا۔
https://youtu.be/RgCo28XsdtI
غلام اسحاق خان کی جانب سے بنائے گئے مقدمات
صدر کی جانب سے بینظیر صاحبہ کے خلاف کرپشن کے چھے ریفرنس دائر کیے گئے (صدر کو یہ اختیار ضیا دور میں دیا گیا تھا)۔ پہلا ریفرنس خفیہ فنڈ میں خورد برد سے متعلق تھا۔ اس ریفرنس میں دی گئی معلومات کے مطابق بینظیر صاحبہ نے دو کروڑ روپے اپنے آپ کو دیے، تین کروڑ نصیر اللہ بابر، ایک کروڑ ملک وارث، ڈیڑھ کروڑ آفتاب شیر پاؤ، ایک کروڑ حنیف خان، چالیس لاکھ محب اللہ شاہ اور چھبیس لاکھ ناہید خان کو دیے گئے۔ دوسرے ریفرنس کے مطابق اسلام آباد میں 287 ایکڑ زمین ایک جعلی کمپنی کو ہوٹل بنانے کی مد میں دی گئی۔ تیسرا ریفرنس مرکزی حکومت کے خلاف پاک فضائیہ کے جہاز استعمال کرنے سے متعلق تھا اور ان جہازوں پر صوبائی اسمبلی کے ارکان سوار تھے جن کو قراراداد عدم اعتماد کے لیے خریدا گیا تھا۔ چوتھا ریفرنس ایل پی جی گیس کے لائسنس اپنے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو دینے سے متعلق تھا۔ پانچواں ریفرنس خام روئی کے معاہدے کے بارے میں تھا جس کی بدولت سرکاری خزانے کو دس کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا اور چھٹا ریفرنس دو سو کروڑ ڈالر کے قرضوں کی خورد برد کے بارے میں تھا جو اصل میں KESC کو مشاورت دینے کی مد میں حاصل کیے گئے تھے۔
6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی کو برطرف کرنے کاحکم جاری کیا۔ اس حکم نامے کو لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن دونوں عدالتوں نے صدر کے حق میں فیصلہ دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں استدعا کی گئی لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ برقرار رکھا۔