ذائقہ شناسی کی بات کی جائے تو شاید ہی دنیا میں ہمارے جیسا ذائقہ شناس تاریخ کو میسر آ سکے۔ اہل نظر کو ہمارے خطے جیسے لذیذ پکوان اور مصالحے دار کھانے پوری دنیا میں اور کہیں بھی میسر نہیں آ سکتے۔ ذائقہ شناسی اور چٹخارہ سے ہماری ازلی الفت نے ہمارے خطے میں مصالحہ جات کی اہمیت کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ اب اس خطے کے باسی کوئی خبر بھی مصالحہ جات اور چٹخارے کے بنا قبول نہیں فرماتے۔ اور اللہ سلامت رکھے ہمارے ٹی وی چینلز کو بھی جو اپنی دکانداری چمکانے کے لئے سنسنی اور مصالحہ جات سے بھرپور خبریں اپنے ناظرین تک بروقت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہر وقت جتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے غیر ضروری مصالحہ جات کے استعمال سے کھانے کی غذائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کے معدے پر بھی مضر اثرات پڑتے ہیں بالکل اسی طرح کثافتوں میں گری ہوئی خبریں زرد صحافت کا پلندہ اور حقائق سے عاری ہوتی ہیں۔
زرد صحافت کے اس دور میں خبر کو ہم تک پہنچانے کے لیے لیے میڈیا کے نمائندے وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کے دوران اصل حقائق اور سچائی مکمل طور پر نظر انداز ہو جاتے ہیں اور ہمارے حصے میں متعلقہ خبر سے منسلک صرف کثافتیں ہی آتی ہیں۔ مگر میرے خیال میں حق شناسی کے حصول میں رکاوٹ کی بڑی وجہ میڈیا اور ٹی وی چینلز کی بجائے ہمارا اپنا مزاج ہی ہے۔ ہم بحیثیت قوم حق شناسی کی بجائے شوقین مزاجی اور ذائقہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو میں ہمارے اس اجتماعی رویے کو ادبی گنجائش نکال کر "لکیر کا فقیر" یا پھر "من موجی" ہونے کا نام دوں گا، کیونکہ ہم ایسے انوکھے لاڈلے ہیں جو خبر سے زیادہ شغل اور افادیت سے زیادہ چسکا پر نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے دو انفرادی نوعیت کے واقعات وقوع پذیر ہوئے، جنہیں ہم سب کی شوقین مزاجی نے اس قدر بڑھاوا دیا کہ کرونا وائرس کی ہلاکت، معیشت کی لرزش اور خارجہ تعلقات جیسے اہم قومی معاملات ان واقعات کی مشہوری کے نیچے دب کر رہ گئے۔ عوام اور ہمارا میڈیا ان واقعات کے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑ گیا کہ رہے اللہ سچے کا نام۔
سوشل میڈیا اور میڈیا "ٹھیکےدار کی بیٹی"، "کرنل کی بیوی" اور "عظمیٰ کو انصاف دو" جیسی عظیم قومی مہمات سے سج گیا۔ حامیوں اور ناقدین کی فوجیں کمربستہ ہوکر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئیں۔ اور پھر ٹی وی چینلز، پریس میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی ہوائی فائرنگ ہوئی کہ ہر خاص عام اس کی زد میں آگیا جن کا ان واقعات سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور ہماری اس قدر گہری دلچسپی کے باعث متعلقہ کیسز میں انصاف کے تقاضے بری طرح متاثر ہوئے (جو کہ عام حالات میں شاید کم ہوتے)۔
اچھا جی یہ تو بات ہوگی ہماری شوقین مزاجی اور ہمارے چسکورے پن کی۔ اب ذرا ہمارا دوسرا اہم رویہ زیر بحث لاتے ہیں۔ ہماری طبیعت میں شوقین مزاجی کی انتہا ہونے کے ساتھ ساتھ اکتاہٹ اور بیزاری بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ہم چیزوں سے بہت جلد اکتا جاتے ہیں اور دستبرداری اختیار کر لیتے ہیں۔ میں انفرادی طور پر ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جو اپنے مقصد سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ وہ مستقل مزاجی سے حصول مقصد کی جانب اپنا سفر مکمل جاںفشانی سے جاری رکھتے ہیں اور بالآخر اپنی پسندیدہ سرگرمی کو لگن اور دیانتداری سے انجام تک پہنچاتے ہیں۔ مگر ہماری اجتماعی حالت بڑی مایوس کن ہے کہ ہم مستقل مزاجی سے کوسوں اور فرسخوں کی دوری پر ہیں۔ ہم ہر چڑھتے چن (چاند) کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں اور پھر اگلے چن کے انتظار میں نگاہیں ٹکا لیتے ہیں۔ پھر جونہی اگلا چن نظر آتا ہے ہم اس کی جانب مکمل متوجہ ہوکر بڑی بے مروتی سے پچھلے چن سے مکمل بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم نے بڑی شوقین مزاجی سے کرنل کی بیوی پر مہم چلائی مگر حقائق جاننے کی زحمت کئے بغیر ہم ٹھیکیدار کی بیٹی کی صورت میں نمودار ہونے والے نئے چاند کی جانب متوجہ ہوگئے اور ساتھ ہی اپنے نئے چن کی تلاش بھی شروع کر دی۔ خوش قسمتی اور میڈیا کی مہربانی سے ہمارا نیا چن (شکل و صورت کے اعتبار سے بلکل بھی نہیں کہہ رہا ایویں کہیں نیا کٹا نہ کھول دیجیے گا) سنتھیا رچی کی صورت میں جلوہ افروز ہوا تو ہم اگلے پچھلے سارے چن بھلا کر مکمل دیانتداری سے اس نئے چن کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اپنے پرانے چنوں سے ہم اس قدر بیزار اور اکتائے ہوئے نظر آئے کہ ہم نے یہ جاننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ یہ چن کیوں چڑھے؟ کیسے چڑھے؟ کس نے چڑھائے؟ یعنی یہ واقعات کیوں پیش آئے؟ ان سے منسلک حقائق کیا ہیں؟ ان کے شہ سرخیاں بننے کی وجوہات کیا ہیں؟
اب مجھے قوی امید ہے کہ ہم جلد ہی اپنے اس نئے چن (چاند) سے بھی بیزار ہو جائیں گے اور اس سے مکمل بے نیازی اور اکتاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کسی نئے چن (چاند) کے منتظر ہوں گے۔
مسئلہ چنوں کے چڑھنے یا غروب ہونے کا نہیں ہے، بلکہ مسئلہ ہماری انفرادی و اجتماعی ترجیحات اور رویوں کا ہے۔ انفرادی ترجیحات مل کر مجموعی صورتحال واضح کرتی ہیں۔ اور قوموں کے بننے یا تباہ ہونے میں لوگوں کے رویے کی سنجیدگی کا بڑا اہم اور کلیدی کردار رہا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ہمیشہ سے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے کئی ممالک ترقی اور وقار کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری شوقین مزاجی اور منچلا پن ابھی تک ختم نہیں ہو رہا اور ہم سنجیدگی اور احساس ذمہ داری سے ابھی بھی دور ہی بھاگ رہے ہیں۔
پاکستانی قوم کو اپنے رویے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں احساس ذمہ داری، شعور اور سنجیدگی کو اپنانا ہوگا اور ہمیں اپنی ترجیحات کو قومی مفادات کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔ شعور، سنجیدگی، احساس ذمہ داری اور حصول مقصد سے پیار کئے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ لہذا اگر ہم اقوام عالم میں اپنا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام رویوں کو ترک کرنا ہوگا جو ہمارے قومی وقار کے منافی ہیں اور ان تمام عادات و اطوار کو اپنانا ہوگا جو قومی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
پاکستان کی تقریبا 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی اور تنزلی میں نوجوان نسل کا کردار ہمیشہ سے کلیدی اور اہم رہا ہے۔ اگر نوجوان نسل غیر سنجیدہ ہو تو قوم کا مستقبل تاریک اور بھیانک ہوتا ہے لیکن اگر نوجوان نسل باشعور، سنجیدہ، مخلص اور ذمہ دار ہو تو وہ قوم کو بام عروج پر پہنچا دیتی ہے۔ میری پاکستان کی نوجوان نسل سے درخواست ہے کہ آپ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں اور اپنی ترجیحات کو قومی مفادات کی روشنی میں ترتیب دیں۔
دوسری جانب میری میڈیا چینلز سے گزارش ہے کہ زرد صحافت سے لگی لپٹی اور سنسنی خیز خبروں کی بجائے حقائق پر مبنی درست خبریں عوام تک پہنچا کر ریاست کا ایک مہذب اور ذمہ دار ادارہ اور اہم ستون ہونے کا ثبوت دیں۔ میڈیا اس ٹیکنالوجی کے جدید دور میں نوجوان نسل کی ملکی و قومی مفادات سے ہم آہنگ کردار سازی میں اہم کردار ادا کرے۔ کیوںکہ باشعور، ذمہ دار، سنجیدہ اور پڑھی لکھی نوجوان نسل کی تیاری اور نوجوان نسل کی کرداری سازی میں جو کردار میڈیا ادا کرسکتا ہے وہ کوئی اور ادارہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔
اگر ہم سب نے اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی نہ لائی اور سنجیدگی اختیار نہ کی تو جان لیجیے کہ تاریخ کا چہرہ بہت کرخت اور سنجیدہ ہے۔ ہم تاریخ کی کتاب کا گرد آلود صفحہ بن جائیں گے جسے وقت کا قاری بہت بے دردی سے مسل کر آگے گزر جائے گا اور داستان تک نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں۔