پنجاب پولیس کی بیورو کریسی نے انکی ایک نہ چلنے دی۔ مجبورا وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلے گئے۔ پھر ایک اور پولیس آفیسر عمر شیخ جنکو سی سی پر او لاہور مقرر کیا گیا انہوں نے بھی پولیس اصلاحات کے حوالے سے ایک اچھا قدم اٹھایا۔ پنجاب پولیس کے اندر فوجی طرزِ کے کورٹ مارشل لاء کو لاگو کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی ناکام رہے۔ آج کل فاروق آباد میں ٹرانسفر کر دیے گئے۔ اخر کیا وجہ ہے ایک ہی ملک کے دو صوبوں میں پولیس اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور ایک صوبہ میں کامیابی اور دوسرے میں ناکامی ہوتی ہے اس سوال کا جواب ایک قانون دان سیاسی کارکن اور جنرل ضیاء الحق کی جیل کانٹے والے آصف بٹ کی کتاب ،،،کہیں سولائیںاں سرراہ تھیں میں مل جائے گا ،آصف بٹ کو جنرل ضیاء الحق پر قاتلانہ حملے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جیلوں میں بند رہے بعد میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انکی سزائے موت کو معاف کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں میں خبیر پختونخوا کے پولیس والوں کو پنجاب کے پولیس حکام کی نسبت اخلاقی طور پر بہتر پایا اور انسانی حقوق کا احترام کرتے دیکھا۔ یہ ایک بہت بڑا سچ ہے جو سیالکوٹ پنجاب کے ایک وکیل اور سیاسی قیدی نے اپنی کتاب میں لکھا اور آج لاہور ہائیکورٹ کورٹ کے چیف جسٹس بھی پنجاب پولیس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ پاکستان ریلویز اُردو زبان اور کرکٹ کے کھیل کے ساتھ ساتھ قومی یکجتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں یہ عظیم ادارہ زوال پذیر ہو چکا ہے ہر سال کوی نہ کوی بڑا حادثہ ہوتا ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں شخ رشید ،غلام احمد بلور ،خواجہ سعد رفیق اور اعظم سواتی وزیر ریلوے بنانے گئے۔ مگر کوئی بھی وزیر ریلوے کے مسائل حل نہ کر سکا۔ غلام بلور نے تو کبھی ریلوے ٹھیک کرنے کا دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ وہ تو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کہتے تھے کہ ہماری مالی اعانت کی جائے ورنہ انشاللہ ریلوے بند ہو جاے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے بھی بلند وبانگ دعوے کیے میں اس پرس کانفرنس میں موجود تھا جس میں پی ایچ اے کے سربراہ افختار احمد جو صحافی بھی ہیں انہوں نے مل کر دعوہ کیا ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ پی ایچ اے پھول لگانے کا کام شروع کرے گا۔
کچھ بھی نہ ہوا۔ خواجہ سعد رفیق کے خلاف ریلوے انجن کی خریداری کے حوالے سے انکوائری بھی ہوئی۔ پھر شخ رشید آگئے جن کا ایک دعوی ہے کہ ریلوے کے مسائل کا ایک ہی حل ہے وہ ایم ایل ون ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم ایل ون پاکستان کی ریلویز کی تاریخ میں سنگ میل ہو گا مگر اسکی تکمیل میں دس سال لگ سکتے ہیں۔ تب تک کیا اسی طرح حادثات ہوتے رہیں گے؟ اگر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا حکم نہ ہوتا تو کراچی سرکلر ریلوے کبھی بھی بحال نہ ہوتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آرمی چیف اور وزیر ریلوے ہمراہ چیر مین ریلوے مل کر بیٹھ کر اس عظیم الشان ادارے پاکستان ریلویز کو بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔