اس پراجیکٹ کے بعد اب ہم اکثر عثمان صاحب کے آفس پہنچ جاتے۔ گھنٹوں ان کی باتیں اور کارنامے سنتے۔ کچھ اپنی سناتے۔ ایک دن عثمان صاحب نے کہا کہ رفیع پیر تھیٹر کے بینر کے نیچے ہم نوجوان ابھرتے ہوئے میوزیکل گروپس کا فیسٹیول کروا رہے ہیں، آپ لوگ مینیجمنٹ میں ہوں گے۔ ہمارا کیا جاتا تھا؟ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ ہمارے کارڈز بن گئے۔
فیسٹیول شروع ہوا تو روز شام ہم الحمرا کلچرل کمپلیکس قذافی سٹیڈیم پہنچ جاتے۔ بلاوجہ بیک سٹیج کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے۔ بہت سارے میوزیکل گروپس حصہ لے رہے تھے۔ کون پہلے جائے گا، کون بعد میں، مفت میں مشورے دیتے، جو قبول بھی ہو جاتے، کیوں کہ فیسٹیول کی اصل انتظامیہ نے ہمیں عثمان پیرزادہ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھا تھا۔ ان میوزیکل گروپس میں آج کئی بڑے نام بھی ہیں۔ مثلاً عاطف اسلم جو ان دنوں بالکل ابھرتے ہوئے نوجوان ٹین ایجر معلوم ہوتے تھے۔ ریج گروپ اور 'اوورلوڈ' جس کی مین سنگر میشا شفیع (جگنی فیم) اور انچارج فرہاد ہمایوں (نوید شہزاد کے بیٹے) جن کا برین ٹیومر کی وجہ سے آج انتقال ہو گیا۔
یوں تو سب میں ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا لیکن جب فرہاد ہمایوں ڈرم پر ہوتا تو وہ ایک سماں باندھ دیتا۔ میں اکثر اس کی پرفارمنس بیک سٹیج کی بجائے آڈیئنس میں بیٹھ کر دیکھنا پسند کرتا تھا۔ اس میں یقیناً ایک 'وکھرا پن' تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ لوگ بہت اوپر جائیں گے۔ یوں تو وہ کوک سٹوڈیو کا حصہ بھی رہا لیکن جتنا ٹیلنٹ فرہاد میں تھا، میرے خیال میں اس کی اتنی پذیرائی نہیں ہو سکی۔ شاید اسے سنگنگ کی طرف نہیں آنا چاہیے تھا۔ اسے صرف میوزک بنانا چاہیے تھا۔
آج اس کے انتقال کی خبر سنی تو میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر گھوم گئے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کالے چمک دار کپڑوں میں ملبوس نوجوان فرہاد بیک سٹیج اپنے ڈرم خاموشی سے ان پیک اور سیٹ کر رہا ہے۔ ہم سے گلے کر رہا ہے کہ آپ نے ہمارا ٹائم دیر سے رکھا ہے۔ پھر اپنی ٹیم کے ساتھ ڈسکشن کر رہا ہے۔ کسی بات پر زور سے ہنس رہا ہے۔
اس کی موت کی خبر سے دل مغموم ہو گیا۔ نوید شہزاد آپا سے بھی TV کے حوالے سے ملاقاتیں رہیں۔ جوان اولاد کی موت "جس تن لاگے سو تن جانے"۔ ان کے لئے صبر کی دعا۔