تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے بحریہ ٹاؤن میں واقع بلاول ہاؤس میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور معاملات پر تفصیلی طور پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات میں شریک پنجاب کے وزیر عطاء اللہ تارڑنے بتایا کہ 'مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر مشترکہ طور پر ضمنی انتخابات لڑنے پر اتفاق کیا ہے'۔
وزارتوں پر اختلافات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ 'اگر ایسا کوئی مسئلہ ہوتا تو اسے حل کیا جاتا'۔
حمزہ کی کابینہ کے 8 اراکین کو قلمدان نہ دینے اور اس کی توسیع میں تاخیر کی وجوہات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں معاملات کو رواں ماہ کے صوبائی بجٹ سے قبل حتمی شکل دینے کا امکان ہے'۔
پنجاب سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے آصف علی زرداری سے شکایت کی کہ حمزہ شہباز پنجاب میں اپنے قانون سازوں کو ان کا 'متفقہ حصہ' دینے سے گریزاں ہیں، پیپلز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں سات نشستیں ہیں اور مبینہ طور پر شریفوں نے انہیں 4 وزارتیں اور دو مشیروں کے عہدے دینے کا وعدہ کیا تھا۔
پارٹی فنانس، کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے محکموں میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں سوچ یہ ہے کہ ایسی اہم نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس نہیں ہونی چاہئیں۔
موجودہ 8 رکنی کابینہ میں دو اراکین کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے تاہم وہ قلمدانوں کی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے کابینہ اور دیگر اجلاسوں میں ’غیر فعال‘ رہتے ہیں۔
اسی طرح پیپلزپارٹی کے پارلیمانی رہنما حسن مرتضیٰ بھی حمزہ کو ’سینئر وزیر کا عہدہ اور دوسری وزارت‘ دینے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کے آپسی معاملات مسائل پیدا کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کابینہ کی تشکیل، خاص طور پر محکموں کی تقسیم میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا ان لوگوں کو ترجیح دے جو شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ ' آصف زرداری کے دورے کا بنیادی مقصد 'غیر تجربہ کار' حمزہ کو مشورہ دینا تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں (پیپلزپارٹی، ترین، علیم اور کھوکھر کے پی ٹی آئی کے منحرف گروپوں) کو ساتھ لیتے ہوئے پنجاب میں چیلنجز سے کیسے نمٹیں'۔
علاوہ ازیں آصف زرداری نے یہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان خیال کے مطابق جنوبی پنجاب کے جن حلقوں میں ان کی اچھی ساخت ہے وہاں میں پیپلز پارٹی کے چند امیدواروں کو میدان میں اتار سکتے ہیں۔
آصف علی زرداری کی طرف سے شریفوں کو اس بات سے آگاہ کرنا ایک ہوشیار اقدام تھا کہ اگر پیپلزپارٹی 'مشترکہ امیدواروں' (پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے حوالے سے) متفق ہوتی ہے تو وہ محض مخلوط حکومت کے وسیع تر مفادات کے لیے ایسا کر رہے ہوں گے'۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنا ٹکٹ صرف مٹھی بھر ڈی سیٹ ہونے والے ایم پی اے کو دیا ہے جنہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) لوٹا یا ٹرن کوٹ کہتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹوں میں دلچسپی رکھنے والے پارٹی کی فیصلہ سازی میں تاخیر کی وجوہات کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
ضمنی انتخابی حلقوں کے مسلم لیگ (ن) کے رہنما مبینہ طور پر 'ٹرن کوٹ' کے لیے وفادار کارکنوں کو نظر انداز کرنے پر شریفوں سے خوش نہیں ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ڈیڈ لائن کے مطابق 24 جون تک پی ٹی آئی کے ان ڈی سیٹ ایم پی ایز کو ٹکٹ دے سکتی ہے۔
ای سی پی نے گزشتہ ماہ حمزہ کو ووٹ دینے پر پی ٹی آئی کے 25 منحرف ہونے والوں کو ڈی سیٹ کر دیا تھا اس طرح موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلی میں اکثریت کی کمی کے ساتھ کمزور ہو گئے ہیں۔
پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے حمزہ کو ایوان میں اکثریت کھونے کے بعد 'غیر قانونی وزیر اعلیٰ' قرار دیا ہے اور اس ضمن میں رن آف الیکشن (وزیر اعلیٰ کے) کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈی سیٹ کیے گئے 25 اراکین میں سے 5 اراکین صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر تھے اور ای سی پی نے کہا کہ 20 سیٹوں پر 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد (ان میں سے 5 مخصوص) نشستیں مختص کی جائے گی۔
عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) منحرف ہونے والوں کو ٹکٹ دینے کے لیے تیار ہے، لیکن ان میں سے کچھ آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ڈی سیٹ ہونے والے 20 اراکین صوبائی اسمبلی میں سے کچھ 8 آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔