گندم اور چینی ایکسپورٹ کرنے والا ملک غذائی قلت کے دہانے پر ہے، حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کل وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس سال گندم خریدنے کے پیسے نہیں ہیں گویا گندم ایکسپورٹ کرنے والا ملک خود گندم کی کمی کا شکار ہے۔
ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کاروبار ملک کی برآمدات بنا ہی نہیں سکا البتہ اس سے درآمدات میں اضافہ ضرور ہوا۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بچھتے ہوئے جال نے نہ صرف ماحولیاتی تباہی بلکہ اربن آزیشن (Urbanization) میں بھی اضافہ کیا جس سے گاؤں تباہ ہوتے چلے گئے، شہروں پر بوجھ بڑھتا گیا اور خاص طور پر لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں آبادی بڑھ گئی، لاہور میں اب کوئی بھی ایسی سڑک نہیں بچی جہاں ٹریفک کی لائینیں نہ ہوں۔
بجائے اس کے کہ یہ شعبہ سستی ہاؤسنگ فراہم کرتا، رئیل اسٹیٹ مافیا نے زمین کے ایسے دام بڑھائے کہ عام آدمی کیلئے گھر لینا مشکل سے مشکل ہوتا گیا۔ ادھر کروڑوں افراد کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری طرف ہاؤسنگ سوسائٹیز میں 3 افراد پر مشتمل چند خاندان کینالوں کے گھروں میں رہتے ہیں۔
چند منافع خور رئیل اسٹیٹ مافیا کی طرف سے غریب کسانوں کا استحصال کر کے کم داموں میں زمین خریدنا، اس پر اپنا سرمایہ لگانا، حکومتی سرپرستی میں اربوں روپ کی ٹیکس چھوٹ حاصل کرنا اور زمین کو عام لوگوں کی پہنچ سے دور کرنا ہی اس نظام کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد ہے۔ جہاں ایک طبقہ صرف سرمائے کی بنیاد دوسروں کا استحصال کرتا چلا جاتا ہے اور معیشیت میں ایک وسیع خلیج پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایک طبقہ امیر سے امیر تر جبکہ دوسرا طبقہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
اب معیشت خستہ حال ہوچکی ہے، گزشتہ اور موجودہ حکومت اور ان میں موجود تمام نمائندے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ معیشیت کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے، لیکن اس رئیل اسٹیٹ مافیا کے نمائندے چونکہ خود اس کا حصہ ہیں اس لئے کوئی اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا۔ گزشتہ حکومت نے رئیل اسٹیٹ مافیا کو اربوں روپے کی سبسڈیز اور ٹیکس چھوٹ دی مگر عام عوام کو کسی بھی قسم کی رعایت دیتے وقت انہیں "سخت فیصلے" یاد آجاتے ہیں۔ پورا ملک جانتا ہے کہ تمام سیاستدانوں اور ملٹری و سول بیورکریسی کا مشترکہ دوست ملک ریاض ہے جو اس پوری رئیل اسٹیٹ مافیہ کا سرغنہ ہے جبکہ ڈی ایچ ایز بنانے والے اس ملک کے بالواسطہ حکمران ہیں۔
اس ملک میں موجود ہر ذی شعور کو معلوم ہوچکا ہے کہ معیشیت کے اس بحران کے ذمہ دار یہ چند منافع خور ہیں۔ لہذٰا غریب عوام سے نہیں بلکہ اس کا نقصان ان منافع خوروں سے ہی لیا جائے۔ غریب عوام قربانی کا بکرا بہت بن چکی اب مزید نہیں بنے گی۔