بدلتے عالمی منظرنامے کے تحت پاک بھارت تعلقات معمول پر لانا ہوں گے

11:48 AM, 8 Jun, 2023

پروفیسر کامران جیمز
شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت پاکستانی حکومت کا انتہائی اہم فیصلہ تھا۔ تقریباً 12 سال کے بعد کسی بھی اعلیٰ سطح کے وفد نے بھارت کا دورہ کیا۔ تاہم اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل قریب میں تعلقات میں بہتری کی توقع رکھنا شاید ابھی قبل از وقت ہوگا۔

دراصل مسئلہ کشمیر ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دونوں ممالک کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل پر سیر حاصل بحث کریں تا کہ تمام مسائل کا حل مستقل اور دیرپا ہو۔ درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات سے پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے لہٰذا دونوں ممالک کو چاہئیے کہ علاقائی اقتصادی ترقی اور عالمی امن کی خاطر بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات فوری طور پر شروع کریں تا کہ جنوبی ایشیا بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح اقتصادی ترقی کر سکے۔

ایٹمی قوتیں ہونے کے باوجود دونوں ممالک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دونوں ممالک ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جس سے ہر سال دونوں ممالک میں غربت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور فی کس آمدنی میں بھی مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نئی سامراجی قوتیں دراصل جنوبی ایشیا میں بھارت کو ایک پولیس مین کا کردار دینا چاہتی ہیں۔ اس نئے سامراج کی پشت پناہی کی ہی بدولت بھارت نے جنوبی ایشیا کے کئی چھوٹے ممالک کو اپنے حلقہ اثر میں رکھا ہوا ہے۔

جنوبی ایشیا میں پاکستان ہی واحد ایسا ملک ہے جو بھارت کی علاقائی بالادستی کی خواہش اور واچ ڈوگ کے کردار کو یکسر مسترد کر چکا ہے۔ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے پاکستان کو بھی روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستانی قوم نے یوم تکبیر کو اسی جوش و خروش کے ساتھ منایا کہ ہم کبھی بھی جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کو قبول نہیں کریں گے۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے سارک جیسی اہم تنظیم بھی عملاً اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ سارک تنظیم بھی علاقائی اقتصادی ترقی، سرمایہ کاری کے فروغ اور جنوبی ایشیا میں فی کس آمدنی میں اضافہ کے حصول میں ناکام رہی ہے۔

اگر تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں کئی یورپی مالک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں اور جنگ و جدل کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا، خصوصاً برطانیہ اور فرانس کے درمیان کئی جنگیں لڑی گئیں۔ بالآخر اقتصادی مفادات کی خاطر کئی یورپی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعاون کرنے اور شراکت داری قائم کرنے پر مجبور ہوئے۔ بالآخر یورپی یونین کا قیام عمل میں آیا اور پھر ایک متفقہ کرنسی یورو کی داغ بیل ڈالی گئی۔ لہٰذا اب جنوبی ایشیا میں بھی علاقائی ترقی، فی کس آمدنی میں اضافے اور روزگار کے مزید مواقع کے حصول کیلئے بیرون سرمایہ کاری اور سکیورٹی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے خصوصاً بھارت اور پاکستان دونوں کو اپنے تعلقات فوری طور پر معمول پر لانا ہوں گے تا کہ دونوں ملکوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو غربت سے نکالا جا سکے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز بھی پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال اور سکیورٹی کو درپیش خطرات کے تناظر میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا بغور جائزہ لیں اور پھر ایک مؤثر اور فعال حکمت عملی تیار کریں۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور آئندہ اہداف کا بھی بھرپور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیا میں بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود انتہائی اہم اور مؤثر اقتصادی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ نیز کئی اہم علاقائی تنظیموں میں دونوں ممالک شامل ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور بھارت میں آزادی کی کئی تحریکوں نیز نسلی و مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کے باوجود بھارت عالمی سیاست میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کی شاید پانچویں بڑی معیشت ہونے کے باوجود بھارت میں کئی لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا بھارت کے اپنے مفادات میں بھی یہی ہے کہ فوری طور پر پاکستان کے ساتھ بامقصد اور باعمل مذاکرات شروع کرے۔

بھارت کی خارجہ پالیسی کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کئی علاقائی تنظیموں کے ذریعے اپنے عالمی کردار کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک جانب بھارت کے روس کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں تو دوسری طرف چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی اپنے مفادات کے لیے قائم کیے ہوئے ہیں۔ خصوصاً امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل کے ذریعے دونوں ممالک ایک دوسرے کے انتہائی قریب آ چکے ہیں۔ ماہرین اسے جنوبی ایشیا میں امریکہ کی سٹریٹیجک شفٹ قرار دیتے ہیں۔

بھارت اب جی 20 کا اجلاس مقبوضہ کشمیر میں کروانے جا رہا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرے گا کہ کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ متحدہ عرب امارات نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ نیز محمد بن سلمان بھی اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارت میں بڑی سعودی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں۔

یاد رہے بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے علاوہ برکس، جی 20 اور کوواڈ کا بھی ممبر ہے جس سے نا صرف جنوبی ایشیا بلکہ ایشیا پیسفک اور جنوبی مشرقی ایشیا تک بھارت اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔

گذشتہ چند سالوں سے بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر انتہائی متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جے شنکر ایک انتہائی منجھے ہوئے سفارت کار ہیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر جے شنکر کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور تقریباً 40 سال سے زیادہ کا سفارت کاری کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر جے شنکر چین، امریکہ اور کئی اہم ممالک میں بھارت کے لیے سفارتی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازع ہو، امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل ہو یا پھر روس سے تیل کے حصول کا معاملہ ہو، ڈاکٹر جے شنکر بھارت کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر جے شنکر نے مغربی میڈیا کے سامنے مغرب کے دہرے معیار کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جب انہوں نے امریکہ پر ترقی پذیر ممالک میں آمروں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگایا۔

ایک اور انٹرویو میں انہوں نے امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنے سے بھی گریز نہ کیا جب ایک صحافی نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا۔ پھر ایک صحافی کے سوال پر ڈاکٹر شنکر نے امریکی انتظامیہ کو پاکستان کو ایف 16 طیاروں کے پرزے فراہم کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے امریکہ کا دُہرا معیار قرار دیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر بھارت کی خارجہ پالیسی کو ہمہ جہت بنیادوں پر فروغ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ میں بھی بھارت ایک طرف اسرائیل تو دوسری جانب عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں کئی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد خطے میں بھارت اپنے مفادات کی تلاش میں اور بھی سرگرم دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات کی وجہ سے کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ شاید اب مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کے نزدیک امریکہ کی اہمیت شاید اب وہ نہیں رہی۔ خصوصی طور پر ایران، سعودی تعلقات کی بحالی سے خطے میں امریکہ کی اہمیت مزید کم ہو گئی ہے۔

دوسری جانب اگر چین کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود چین کے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات معمول کے مطابق ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے چین نے عرب ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت چین کے صدر کا چند سال پہلے سعودی عرب کا کامیاب دورہ تھا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دے رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان آہستہ آہستہ امریکہ پر اپنا انحصار کم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ محمد بن سلمان بھی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے محمد بن سلمان نے امریکی صدر کی درخواست کو اس وقت مسترد کر دیا جب انہوں نے سعودی عرب سے تیل کی پیداوار میں اضافے کیلئے درخواست کی تا کہ امریکہ کو کساد بازاری سے نکالا جا سکے۔

چین اب خلیج فارس پر بھی اپنے اثر و نفوذ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی تنازع خصوصاً تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مابین تنازع کسی بھی طور پر چین کے حق میں نہیں ہے۔ لہٰذا چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ چین سمجھتا ہے کہ مستقبل قریب میں توانائی کے حصول کے لیے چین کو مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کی جانب دیکھنا ہو گا کیونکہ چین کی بڑھتی معیشت کے لیے ایندھن کے متبادل وسائل مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس سے حاصل کرنے ضروری ہیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان میں بھی پالیسی ساز دنیا میں ہونے والے حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیں اور ایک مربوط خارجہ پالیسی تشکیل دیں۔ دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے سعودی عرب کئی دفعہ ایران کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دے چکا ہے اور خلیج فارس میں ایران کی بالادستی کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ماضی قریب میں دونوں ممالک مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے کے خلاف کئی متحارب گروپوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام کی صورت میں نکلا تھا۔ پھر سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم دین کو سعودی عرب میں پھانسی دے دی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو گئے اور پھر سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو گئے۔ لیکن چین نے آگے بڑھ کر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا اور پھر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی یادداشت پر بیجنگ میں دونوں وزرائے خارجہ نے چین کے وزیر خارجہ کی موجودگی میں باقاعدہ دستخط کیے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بھارت اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حصول کی بھارتی کاوشیں درپردہ آج بھی جاری و ساری ہیں۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اینڈو پیسفک، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں بھی اپنے اثر و نفوذ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے اور کئی اہم علاقائی تنظیموں کا حصہ ہے۔ لہٰذا اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز بھی بدلتے حالات و واقعات کی روشنی میں پاکستان کے لیے ایک مؤثر اور قابل عمل خارجہ پالیسی تشکیل دیں۔

عالمی سیاست میں چین کے بڑھتے اثر و نفوذ اور بھارت کی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بننے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کی قیادت شاید اب ایشیا کے ہاتھ میں ہو گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس نئے عالمی منظر نامے میں یعنی مستقبل قریب میں بدلتے ہوئے حالات و واقعات میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟

پاکستان میں حالیہ سیاسی عدم استحکام دراصل معاشی ابتری کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ڈالر کی اونچی اُڑان رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کے امکانات مخدوش ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ فی کس آمدنی میں اضافہ کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام ٹیکسوں کا مزید بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ روپے کی قدر گرتی چلی جا رہی ہے۔ 9 مئی کے واقعات سے ملک شدید داخلی خطرات سے دوچار ہے۔ اس سارے منظرنامے میں ہمیں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی دونوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

چین مستقبل قریب میں شنگھائی تعاون تنظیم کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔ روس اور ایران کے ساتھ ساتھ کئی یورپی ممالک بھی اس کی رُکنیت کے لیے خواہش مند ہوں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان بھی نا صرف سارک اور شنگھائی تعاون تنظیم بلکہ دیگر علاقائی تنظیموں میں اپنے مؤثر کردار کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے اور اب ہمہ جہتی پالیسی کے ذریعے اپنے مفادات کو خود تلاش کرے، چین کے بڑھتے عالمی کردار سے فائدہ اُٹھائے اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا دونوں پڑوسی ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گا۔ اس سلسلے میں اندرون ملک سیاسی استحکام اور خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کی اَشد ضرورت ہے۔
مزیدخبریں