ساحر لدھیانوی، جنہوں نے فلمی نغموں کو تخلیقی شاعری کے قریب پہنچا دیا

ساحر نہ صرف حکمران طبقوں کے خلاف صف آرا تھے بلکہ وہ مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیداروں، خون نچوڑنے والے سرمایہ داروں اور انسان دشمن سپر پاورز کے خلاف بھی مزاحمت کا پرچم بلند رکھتے تھے۔ ساحر کی نظموں میں سماجی انصاف، انسانی برابری اور سچائی کی تلاش جابجا دکھائی دیتی ہے۔

08:15 AM, 8 Mar, 2021

رضا رومی

عبدالحئی صاحب 8 مارچ 1921 کو لدھیانہ کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کی کئی بیویاں تھیں، ساحر جب 8 سال کے تھے تو ان کی والدہ نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنی محنت کے بل بوتے پر برصغیر کے اس عظیم شاعر کو تن تنہا پالا۔

عبدالحئی نے اپنے تلخص کا انتخاب علامہ اقبال کے اس شعر سے متاثر ہو کر اپنایا؛
؎اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی
ساحر کی ابتدائی زندگی اور ان پر گزرنے والے حادثات نے ان کو شروع سے ہی جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت پر قائل کیا اور ان کی ساری زندگی اسی بغاوت سے عبارت ہے۔

خصوصاً جو کچھ ان کی والدہ پر گزری اس نے ساحر کو خواتین کے حقوق کی علمبرداری پر بھی مجبور کیا اور زندگی بھر ساحر کی شاعری ہو یا فلمی گیت، ان میں آپ کو واضح طور پر خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بازگشت سنائی دے گی۔ نہ تو ان کو ان کی والدہ کے حقوق ملے اور نہ ہی وہ مقام جس کے ساحر اور ان کی والدہ مستحق تھے۔ شاید انہی تجربات کی روشنی میں انہوں نے لکھا؛
؎ ’دنیا نے تجربات اور حوادث میں جو دیا ہے، اسے لوٹا رہا ہوں میں‘
بعد ازاں ساحر نے جاگیردار گھرانوں اور گھروں کی چار دیوراری کے باہر عورتوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک دیکھا تو چلا اٹھے؛
؎عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
اور یہ ملاحظہ کیجئے؛
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بانٹی جاتی ہے عزت داروں میں
اوطار پیمبر جنتی ہے
پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بدقسمت ماں ہے جو
بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
1963 میں لکھی گئی چتر لیکھا میں انہوں نے مردوں کے بارے میں لکھا؛
؎ سنسار سے بھاگے پھرتے ہو
بھگوان سے تم کیا پاؤ گے
'سادھنا' فلم کا گانا، 'تورا منوا کیوں گھبرائے' جو ویجنتی مالا پر فلمایا گیا اس گانے میں ساحر نے ایک طوائف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مندر میں داخل ہونے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔
ساحر کی والدہ چاہتی تھیں کہ وہ پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری حاصل کریں اور اپنے نیم خواندہ باپ کی روش اختیار نہ کریں۔ لیکن ساحر  پیدائشی شاعر تھے اور انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ڈگری مکمل نہ کی۔

اگرچہ ساحر کو اپنی صلاحتوں پر بڑا ناز تھا اور ان کا دل بھی ادب کے لئے دھڑکتا تھا لیکن یہ زندگی آسان نہ تھی۔ ہمارے خطے میں شاعر اکثر اوقات مفلوک الحالی میں ہی زندگی بسر کرتے ہیں اور ساحر بھی انہی تجربات سے گزرے۔ جب وہ لاہور میں رہتے تھے تو ان کے پاس پیسے بالکل نہیں ہوتے تھے۔ 'صبح نوروز'، ان کی ایک مشہور زمانہ نظم، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ایک بلند آواز ہے۔ جب امرا نئے سال کی خوشیاں منانے کی تیاریاں کرتے ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں تو اس وقت بھوکے اور ننگے بچے ان امرا کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔
بھوکے زرد گدا گر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن مناؤ سالِ نو کے
اگرچہ ساحر کی ابتدائی شاعری کا مزاج رومانوی تھا جس میں محبت اور جدائی کے قصے خوب بیان کیے گئے ہیں لیکن ان کا پہلا مجموعہ 'تلخیاں' جو 1944-45 میں شائع ہوا اس میں فیض کی طرح محبت کے ساتھ سماجی اور سیاسی شعور بھی بدرجہ اتم جھلکتا ہے۔

مثلاً 'قحط بنگال' اور 'چکلے' دو ایسی نظمیں ہیں جو عدم مساوات اور پدرشاہی پر مبنی معاشرے کی ساخت پر زناٹے دار طمانچہ رسید کرتی ہیں۔

آپ سب کے علم میں تو ہوگا کہ 'تلخیاں' دیوان غالب اور دیگر شاعرانہ مجموعوں کی طرح لاکھوں کی تعداد میں ہندی اور اردو میں چھپ چکی ہے۔

1930 کی دہائی کے آخر تک ساحر کی شاعرانہ صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1937 میں انہوں نے فلم انڈسٹری کے لئے لکھنا شروع کیا۔ لیکن ان کی عوامی مقبولیت کا صحیح آغاز 1952 میں 'بازی' فلم کے لاجواب گیتوں سے ہوا۔ یہ 1950 کا واقعہ ہے کہ ان کے دوست موہن سہگل نے انہیں شہرہ آفاق موسیقار ایس ڈی برمن سے ملوایا۔ جب برمن دا نے ایک دھن ساحر کو سنائی تو ساحر نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک گیت لکھ دیا جو ایس ڈی برمن کو اتنا بھایا کہ اس کے بعد ساحر ان کے پسندیدہ شاعروں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
1955 اور 1956 تک ساحر بمبئی کے ہر بڑے موسیقار کے پسندیدہ گیت کار بن گئے۔ ان میں گرو دت، یش چوپڑا، روشن اور خیام شامل تھے۔ لیکن ساحر کی شہرت کا عروج فلم 'پیاسا' سے شروع ہوا جسے ٹائم میگزین نے دنیا کی بہترین 100 فلموں میں شامل کیا۔

1957 میں ساحر نے رمیش سہگل کی فلم 'پھر صبح ہوگی' میں لکھا جو عظیم روسی ناول نگار دوستوؤسکی کی کتاب 'کرائم اینڈ پنشمنٹ' سے ماخوذ تھی۔

بظاہر تو ساحر فلموں کے لئے لکھ رہے تھے لیکن ان کے سارے گیت اعلیٰ شاعری کے معیار اپنائے ہوئے تھے۔ اور مزید ساحر نے اپنے سیاسی شعور کو بھی انہی گیتوں میں ڈھال دیا تھا۔ ان کے ترقی پسند اور روشن خیالات آپ کو ان کے گیتوں کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ملیں گے۔

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ سنیما نے ساحر کے ساتھ سمجھوتہ کیا مگر ساحر نے اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔

جب بھی ہم یہ شکایت سنتے ہیں کہ کمرشل سنیما یا ٹی وی تخلیق کاروں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے تو ہم بھول جاتے ہیں کہ بڑے فنکار اپنا لوہا کسی بھی میڈیم میں منوا سکتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ساحرنے خود کو گیت کار کے بجائے شاعر کہلوانا پسند کیا۔ ساحر بمبئی کے جس بنگلے میں رہتے تھے اس کا ایک نامور مقیم شاعر گلزار بھی تھا اور آج گلزار صاحب کی بابت ہمیں بہت سی باتیں ان کے بارے میں پتہ چلتی ہیں۔

ساحر نے اپنے ترقی پسند نظریات کو جس خوبصورتی اور مہارت سے ادبی پیرائے میں ڈھالا وہ بھی انہی کا خاصہ ہے۔ اور ان کے مشورے اتنے اہم ہوتے تھے کہ فلم ڈائریکٹر بھی ان کو ماننے پر مجبور تھے، مثلاً ایک یادگار فلم 'پھر صبح ہوگی' کے لئے موسیقار خیام کا انتخاب کروایا کیونکہ ساحر کے نزدیک وہ شنکر جے کشن سے زیادہ شاعری کا شغف رکھتے تھے۔

میں نے پہلے ساحر کی نظریاتی اساس کا ذکر تو کیا مگر میں یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ ساحر ایک سچے سوشلسٹ بھی تھے۔ نوجوانی کے ایام میں ان کو ایک دوست نے سوشلزم پر ایک کتاب دی جس نے ساحر کو سوشلزم کے اصولوں سے شناسا کیا۔ ان کے نزدیک سوشلسٹ اصول ہی ہندوستان جیسی غریب اور مابعد نوآبادتی ریاست کو آگے لے جا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر نے ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کی اور چند اختلافات کے باوجود وہ ان نظریات پر قائم رہے۔

یوں تو ساحر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر نہ تھے جیسے مجروح سلطان پوری، علی سردار جعفری اور دیگر ادبی ہستیاں کمیونسٹ پارٹی کا حصہ تھیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کا سوشلسٹ فلسفہ ساحر کو بہت عزیز تھا۔ محبت اور تعظیم کا یہ رشتہ یکطرفہ نہ تھا، جواہر لال نہرو بھی ساحر کے معترف تھے۔ مثلاً 1964 میں نہرو کی وفات پر ساحر نے کیا عمدہ نظم لکھی؛
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے
دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے
سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی 
عوامی شاعر
ساحر کی نظموں میں سماجی انصاف، انسانی برابری اور سچائی کی تلاش جابجا دکھائی دیتی ہے۔ ایک بار ساحر نے کہا تھا؛

'میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو فلمی نغموں کو تخلیقی شاعری کے قریب لا سکوں اور اس صنف کے ذریعے جدید سماجی اور سیاسی نظریے عوام تک پہنچا سکوں'۔

ساحر نہ صرف حکمران طبقوں کے خلاف صف آرا تھے بلکہ وہ مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیداروں، خون نچوڑنے والے سرمایہ داروں اور انسان دشمن سپر پاورز کے خلاف بھی مزاحمت کا پرچم بلند رکھتے تھے۔ وہ کسان جو قرضے میں ڈوبا ہوا تھا، وہ سپاہی جو کسی اور کی جنگ میں اپنی جان کی بازی لگا رہا تھا، وہ عورت جو اپنا جسم بیچنے پر مجبور تھی اور وہ نوجوان جو بے روزگاری کی چکی میں پس رہا تھا، سب ساحر کے ہیرو تھے۔

ساحر کا طبقاتی شعور اور مزدور کے ہنر اور خون پسینے کی تعظیم ان کی شہرہ آفاق نظم 'تاج محل' میں جا بجا موجود ہے۔

میں جانتا ہوں کہ 'تاج محل' کا حوالہ ایک cliché بن چکا ہے لیکن کیا کیجئے آفاقی نظمیں کبھی بھی پرانی نہیں ہوتیں۔ یہ مصرعے ملاحظہ کیجئے؛
یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
منقش درودیوار محراب یہ تاک
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
اس نظم نے نہ صرف تاج محل کے روایتی استعارے کو چکنا چور کر دیا ہے بلکہ حسن، جمالیات اور محبت کے روایتی نظریات کو بھی الٹا دیا ہے۔ بقول ساحر، اک شہنشاہ نے محبت کو سنگ مرمر اور پتھروں میں مقید کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ عاشق و محبوب کی زندگی پتھر کی بنا دی۔

ایسا نہیں کہ ساحر کو تاج بحیثیت ایک عمارت پسند نہیں، وہ اس کے حسن سے ہم سب کی طرح اثر انداز ہوئے ہوں گے لیکن ان بیچارے بے نام مزدوروں کا بہایا ہوا خون اور بے معنی پسینہ اصل موضوع ہے جسے بہت ہی کم شاعروں اور ادیبوں نے ٹٹولنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں پر ساحر کی دیگر شاعری کی طرح محبت کے پاکیزہ اور آفاقی جذبات دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور استحصال کی بد صورتی کے ہاتھوں سر نگوں ہو جاتے ہیں۔ اور اسی تلاطم اور تضاد کی بنا پر یہ نظم اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک انسانی معاشرے سے استحصال ختم نہ ہوگا۔

آپ ساحر کے فلمی گیتوں کو ہی لے لیجیے، یہی موضوعات جا بجا ملیں گے۔ مثلاً؛

بنے ہو ایک خاک سے ( آرتی)، خدائے برتر تری زمین پہ جنگ کیوں ہے (تاج محل)، انسانوں نے پیسے کے لئے (پیسہ یا پیار)۔

ایک استحصالی معاشرے میں جس طرح سے لوگوں کو عدم برابری کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، ساحر نے ان تمام ہتھکنڈوں کا بھی بھرپور ذکر کیا۔ اور یہ کام کمرشل فلموں میں کرنا اتنا آسان نہیں، اس کے لئے جمالیات اور سیاسیات کا توازن برقرار رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

نہ تو یہ نغمے سیاسی نعرے ہیں اور نہ ہی کسی جلسے کی تقریر کے حصے، یہ سنیما انڈسٹری اور اس سے جڑے کروڑوں فلم بینوں کے سماجی شعور کا انمٹ حصہ ہیں۔

اسی پیرائے میں ساحر نے علامہ اقبال کے ترانہ ہندی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جہاں پہ اقبال 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا' میں چین و عرب کا ذکر کرتے ہیں اس کا ساحر نے یوں تذکرہ کیا؛
چین و عرب ہمارا
ہندوستان ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے
سارا جہاں ہمارا
لیکن ایسا نہیں کہ ساحر کی شاعری میں محض یاسیت ہی غالب ہے بلکہ اس میں ایک بہتر معاشرے کا خواب اور اس کی تعبیر کے لئے جدوجہد کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ ان کے ہلکے پھلکے نغمے، 'میں زندگی کا ساتھ  نبھاتا چلا گیا'، جو دیو آنند پہ فلمایا گیا، ساحر کی زندگی سے محبت کا عکاس بھی ہے۔ آج کے ذات پات اور مذہبی نفرتوں میں بٹے ہوئے ہندوستان کے لئے ساحر کا یہ لازوال گیت ایک قومی ترانے کی حیثیت رکھتا ہے۔
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
اپنے 30 سال سے زائد عرصے پر پھیلے کامیاب کریئر کے دوران ساحر نے 111 فلموں کے لئے 718 نغمے لکھے۔ افسوس کی یہ بات ہے کہ ساحر کے بعد بہت کم فلمی نغمہ نگاروں نے سیاسی و سماجی شعور کو فوقیت دی۔ ساحر لدھیانوی کا یادگار فلمی کریئر صرف ان کی شاعری تک محدود نہیں بلکہ اس امر کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ پاپولر کلچر کی صنف صرف انٹرٹینمنٹ یا کمرشل مقاصد کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذریعے آپ کئی ترقی پسند نظریات کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اور شاعری محض جمالیاتی حس اور ردیف قافیے کی بندشوں کا نام نہیں بلکہ وہ سماجی تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
آخر میں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ساحر ہندوستان اور اس کے باہر بھی امن کے بہت بڑی داعی تھے۔ ہند و پاک جنگوں اور مخاصمت پر ان کی عمدہ شاعری آج بھی برصغیر کے تمام انسان دوست لوگوں کی مشترکہ آواز ہے۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
ساحر نے یوں تو لکھا تھا؛
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل میری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل میری جوانی ہے
لیکن جیسے کہ انہوں نے خود ہی کہا تھا؛
’جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے،
یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے 21 سال بعد بھی ان کی شاعری اتنی ہی مقبول ہے جتنی نصف صدی قبل تھی اور ان کے نظریات آج بھی ہمارے خوشحال، پر امن اور منصفانہ مستقبل کی امید ہیں۔

مزیدخبریں